Kisi Ke Kaam Na Aye Wo Zindagi Kya Hai
کسی کے کام نہ آئے وہ زندگی کیا ہے
میرا نام سلیم زمان خان ہے، میری زندگی کے 30 سال سماجی خدمت میں گزرے ہیں۔ اسی طرح پھر کیرئیر بھی NGO سیکٹر میں گزرا۔ کام کی ابتدا ہم نے سیٹلائیٹ ٹاؤن کوئٹہ کی ایک گراس روٹ لیول کے سماجی خدمت کے ادارے انجمن رفاہ عامہ سے کیا۔ اس ادارے نے ہمیں سماجی خدمت کی سمجھ بوجھ دی اور بلوچستان کو NGO سیکٹر کے بڑے نام دئے۔ وہ تمام نوجوان جو 1987 میں انجمن رفاہ عامہ سے سماجی خدمت کے شوق میں منسلک تھے وہ اب حکومت بلوچستان کے سرکاری اور پبلک پرائیوٹ سیکٹر کے کرتا دھرتاؤں میں سے ہیں۔
اسے میں اپنی خوش قسمتی کہوں یا بدقسمتی کہ 2005 کشمیر، 2008 زیارت، 2010 سیلاب میں مجھے پورے پاکستان میں پروفیشنل اور رضاکارانہ کام کی سرپرستی کا موقع ملا۔ ہر طرح کی امداد (ادویات، خیمے، عارضی گھر، خوراک، زرعی اجناس اور زرعی زمین کی بحالی، اور کام کے بدلے کیش پیسے دینے کے پراجیکٹس کی سرپرستی کی)۔
اس مختصر تعارف کا مقصد یہ تھا کہ اپنے اس خدمت خلق، رضاکاری اور محدود پروفیشنل تجربہ نے مجھے صرف ایک بات سکھائی ہے۔ کہ رضاکارانہ کام اور خدمت صرف ایک جذبہ کا نام ہے اور انتہائی کم اور محدود وسائل سے کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے بہت سے کیمپ لگانے، شور مچانے اور اردگرد panic پیدا کرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔ ویسے تو ایمرجنسی ریلیف میں ہر شعبہ انتہائی توجہ طلب ہے مگر جو سب سے زیادہ اس وقت توجہ طلب امر ہے وہ خوراک، اور ادویات ہیں۔ اسکے بعد چونکہ موسم سرد ہوتا جائے گا تو خیمہ اور عارضی گھروں کی ضرورت ہو گی۔
جیسا کہ میں اوپر عرض کر چکا ہوں کہ خوراک اور ادویات ایک ا نتہائی اہم ضرورت ہے اور اس کے لئے ہر سطح پر عوام کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی۔ اور یہ کام گھر کی خاتون سے شروع کرنا ہو گا۔ جو اس تکلیف کو سب سے زیادہ محسوس کرتی ہے۔ کہ جب اس کا بچہ بھوکا ہو، پیاسا ہو یا بخار میں مبتلا ہو۔ اور اس کی جواں ہوتی بیٹی اپنی قدرتی مسائل کو حل کرنے کی استطاعت نہ رکھتی ہو اور بے پردگی کا شکار ہو، چاہے لباس ہو یا صحت نوجوان بچی اس وقت سب سے زیادہ توجہ کی منتظر ہے۔
میری آپ تمام دوستوں سے دست بستہ عرض ہے کہ
● ادوایات و خوراک کی فراہمی کی چند سفارشات۔
•ہم سب کے گھر میں بیماری رہتی ہے اور مختلف ادویات بیماری ختم ہونے پر بچ جاتی ہیں جو پڑے پڑے ایکسپائر ہو جاتے ہیں اور کسی کے کام نہیں آتیں۔ اگر ہر شخص اپنے گھر اور مسجد میں ایک ایسا باکس رکھ دیں۔ جس میں ہر گھر میں بچی ہوئی ادویات لا کر ڈال دی جائی اور مخیر حضرات کچھ ایسی ادویات جو سیلاب میں ضرورت پڑ سکتی ہے جیسا کہ بخار، اسہال، ہیضہ، ملیریا کے کام آ سکیں خرید کر اس ڈبے میں ڈال دیں۔
اسی طرح سے خواتین کے سینٹری نیپکین بھی ایک پیکٹ لے کر اس میں ڈال دیا جائے اور خصوصاََ روئی کے پیکٹ (کاٹن رولز) بھی خرید کر اس میں ڈال دئے جائیں جو کہ زخم اور دیگر معاملات اور خصوصا خواتین کے مسائل میں ممد اور معاون ثابت ہوں گے۔ (اگر خواتین کی اشیاء ضروریہ کے لئے گرلز اسکولوں اور کالجوں میں ایسا باکس رکھ دیا جائے۔ جس میں خواتین کے استعمال، خواتین اور بچوں کے پہنے کے پرانے کپڑے جمع کر دئے جائیں۔
جو من پسند رضا کار تنظیم کو پہنچا دیئے جائیں تو یہ قطرہ قطرہ بھی دریا بن جائے گا۔ محلے میں رضاکار لڑکوں اور بچیوں کے علیحدہ واٹساپ گروپ بنا کر ان کی نیٹ ورکنگ کر دی جائے جسے کسی بھی قابل اعتماد NGO، ہسپتال، یا رضاکاروں کے ذریعے قریب ترین علاقوں میں بھجوا دی جائیں۔
• خوراک کے لئے بھی آپ کو آٹا، چینی، چاول جمع کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ انہیں پکانے کے وسائل سیلاب زدگان کے پاس بالکل نہیں۔ اس لئے کوشش کی جائے کہ شہر اور گاؤں کے ان تندوروں پر پیسہ اور آٹا دلوائیں اور انہیں دو یا تین مہیں ے کے لئے کرائے پر حاصل کر لیں اور ایک مخصوص علاقے کے خوراک کو وہاں سے فراہم کیا جائے جس کو مخیر حضرات خود مانیٹر بھی کریں اور وہاں پیسہ بھی دیں اور آٹا بھی۔ اسے ساتھ صرف قہوہ چائے صبح کو بنا کر رکھی جائے تاکہ لوگوں کو اپنی جگہ اور علاقہ کے ہوٹل یا تندور کا علم ہو۔ یقین کریں اس طرح کا ایک ہوٹل یا تندور دس کلومیٹر کے علاقے کا احاطہ کر سکتا ہے۔
• اس کے بجائے کہ راشن پھینکا جائے جو سیلاب زدگان بیمار لوگوں کے کسی کام نہ آئے اور وہ اسے اونے پونے داموں علاقے کے ساہوکار کو بیچ کر اپنے روزمرہ کا خرچہ پورا کریں۔ NGO اور رضا کار تنظیموں کو اپنے ریلیف پوائنٹس پر تندور لگا کر پکی روٹی مہیا کرنی چاہئے۔ یقین کریں انہیں خوراک اور ادویات مل جائیں تو پانی اترنے پر وہ گھر خود بنا لیتے ہیں انہیں یہ بنائے ہوئے عارضی گھر یا خیمہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔ یہ خیمے دوبارہ بازار میں بکتے ہیں اور اس کی قیمت سے وہ اپنے مرضی کے گھر بناتے ہیں۔
اگر اس سب میں کوئی فائدہ اٹھاتا ہے تو وہ تھرڈ پارٹی کے افراد ہیں۔ جو NGO، یا سرکاری اداروں کے لوگ، وڈیرے، خان، نواب ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ جتنی بھی زرعی زمین سیلابی ریلے کی نظر ہوئی ہے اس میں بسنے والے خاندان سب زمیندار نہیں ہیں۔ بلکہ وہ کسی خان، وڈیرے، زمیندار کے ہاری ہیں اور ان کو ملنے والی امداد پھر بڑے گوداموں میں پہنچ جاتی ہے۔ کیونکہ اس زمیندار نے جس کے پاس ان کے شناختی کارڈ تک گروی ہوتے ہیں اپنا نقصان پورا کرنا ہوتا ہے۔
کہتے ہیں جب حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالا گیا تو سب درندے، پرندے اور جانور یہ تماشہ دیکھ رہے تھے۔ اور خدا کی امداد کے منتظر تھے۔ مگر ایک چڑیا بے چینی سے دور دراز علاقے سے اپنی ننھی چونچ میں پانی لاتی اور اس آگ پر ڈال دیتی۔ سب جانور اس کا مذاق اڑاتے۔ کسی نے کہا کہ اے چڑیا، تم دیکھ رہی ہو کہ آگ اتنی زیادہ ہے کہ اس کے شعلے پہاڑوں سے بلند ہو رہے ہیں۔ اور تم ایک قطرہ پانی ڈال کر کیا خدمت کر رہی ہو۔
تو چڑیا بولی۔ جتنی استداد اور طاقت میرے ربّ نے دی ہے اتنی کوشش مجھ پر فرض ہے۔ کیونکہ خدا نتائج نہیں، نیت پر اجر دیتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ خدا میری نیت دیکھ رہا ہے۔
آپ سب سے گزارش ہے کہ خدارا! اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ ناکہ ہر شخص ایک ٹرک سامان اور ہزاروں روپے خرچ کرے۔
حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ سے صحابہ کرام نے عرض کی کہ کیا خیرات کریں۔ تو آقا ﷺنے ارشاد فرمایا جو تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو (یا ضرورت کے بعد بچ جائے) وہ خدا کی راہ میں خرچ کرو۔
یہ ادویات جو ہماری الماریوں میں پڑی ہیں یہ کپڑے اور جوتے جنہیں ہم نے سالہا سال سے استعمال نہیں کیا۔ اگر ایک بچے کی زندگی، ایک بیٹی کا پردہ رکھ لیں تو شائد ہمیں قیامت میں ندامت کا شکار نہیں ہونا پڑے گا۔
"جس نے ایک انسان کی جان بچائی تو گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔ " القرآن (5: 23)