Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saleem Zaman
  4. Kabhi Kabhi Poori Kayenaat Aap Ke Khilaf Ho Jati Hai

Kabhi Kabhi Poori Kayenaat Aap Ke Khilaf Ho Jati Hai

کبھی کبھی پوری "کائنات" آپ کے خلاف ہو جاتی ہے

وہ ابھی نابالغ تھی کہ اس کا بھائی جو ابھی نوجوانی کی حدوں میں آ رہا تھا محلے کے ایک دکاندار سے اس کی دوستی تھی۔ ایک دن اس دکاندار نے اس کے بھائی کو کہا۔ یار پپو! تیری بہن جب سودا لینے آتی ہے بالکل گڑیا جیسی دکھتی ہے۔ گول چہرے۔ بڑی آنکھیں۔ بورے بال کالی انکھیں۔ مجھے بہت پیاری لگتی ہے۔ بھائی نے کہا ہم سب کو وہ بہت پیاری لگتی ہے کیونکہ گھر کی جان ہے۔ سب سے چھوٹی جو ہے۔

دکاندار نے پپو کا ہاتھ پکڑا اور اسے دباتے ہوئے کہا۔ ایک مرتبہ اسے میری دکان میں دوپہر کو لے آو۔ پچاس روپے دوں گا۔ پپو نے گھبرا کر انکار کیا، کیونکہ پپو اب اس کا مطلب سمجھتا تھا۔ اس نے پپو کو آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا اگر تو نہیں لائے گا تو جو تیرے ساتھ کرتا ہوں سب محلے کو بتا دوں گا۔ مجبوری میں پپو اپنی گڑیا جیسی بہن کو بہلا پھسلا کر دکاندار کے پاس لے آیا اور خود ڈر کر گھر بھاگ گیا۔ جب دوپہر کے بعد آیا تو اس کی بہن کے ہاتھوں میں ایک جوس کا ڈبہ کچھ ٹافیاں تھیں اور وہ دکان کے تھڑے پر نڈھال بیٹی رو رہی تھی۔

پپو نے کہا گھر جاو وہ بولی چل نہیں سکتی انکل نے بہت بری طریقے سے مجھے ہاتھ لگایا ہے۔ پپو نے غصے سے مسکراتے ہوئے دکاندار کی طرف دیکھا اور ہاتھ پکڑ کر گڑیا کو گھر لے آیا۔ وہ چلنے میں تکلیف محسوس کر رہی تھی۔ رات ساری روٹی رہی کہ اس کے پیٹ کے نچلے حصے میں بہت درد ہے۔ ماں رات بھر گرم تیل سے اس کی مالش کرتی رہی اور پپو اپنی رضائی سے یہ دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتا رہا۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔ پپو کو دکاندار سے پیسوں کا فائدہ ہونے لگا اور گڑیا کی ماں سمجھی کہ اس کی بیٹی کو ہرنیا کا مرض ہوگیا ہے۔ کیونکہ ابھی وہ بچی تھی اور درد سے چلاتی تھی۔

پپو کا سب سے بڑا مسئلہ گڑیا کا منہ بند رکھنا تھا اور اس کے لئے اسے گڑیا کو خوش رکھنا پڑتا تھا۔ اب پپو بھی جوانی کی دہلیز کی طرف بڑھتا تھا ایک دن گڑیا کو پیار کرتے ہوئے وہ بھی حد سے گزر گیا۔ گڑیا کے لئے یہ سب نیا نہیں تھا، لیکن اتنا تکلیف دہ بھی نہیں جتنا کہ دکاندار چاچا اسے تکلیف دیتا۔ اب اس بھائی نے گڑیا کے ساتھ گھر گھر کھیلنا شروع کر دیا۔ جس میں اس کا کردار خاوند کا اور گڑیا کا بیوی کا ہوتا۔ دونوں گھر کے تہہ خانے میں گھنٹوں کھیلتے رہتے۔

ایک بار ماں نے پکڑا اور پپو کو بہت مارا۔ پپو اور گڑیا ڈر گئے۔ پھر کچھ عرصے بعد ان کے کسی عزیز کی شادی آئی تو سب کزنز مل کر کھیلنے لگے اور پپو نے اپنے دوسرے کزنز کو بھی گھر گھر کھیلنے پر آمادہ کیا۔ اور ان تین کزنز کو کہا ہم سب کی ایک بیوی ہوگی ہم سب مل کر رہیں گے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ گڑیا کا ڈر لڑکوں سے ختم ہوا اور اسے اس کھیل میں اچھا لگنے لگا۔ اسی دوران گڑیا کی ماں نے اس پر سختی کرنا شروع کر دی کہ اب وہ عنقریب جوانی کی حدود میں داخل ہونے والی تھی لہذا لڑکوں سے کھیلنا اس کا بند ہوگیا۔ اب یہ کھیل سے بڑھ کر بن گیا اور گڑیا اور اس کے کزن چھپ چھپ کر کھیلنے لگے۔

اسی دوران گڑیا کی ایک کلاس فیلو نے اپنے خیالات اور پریشانیوں کا اظہار گڑیا سے کیا تو گڑیا کو پہلی بار سکوں ملا کہ وہ کسی سے بات کر سکتی ہے۔ دونوں نے حال دل ایک دوسرے سے کیا اور اس لڑکی نے اسے اس غم کا اصل حل یہ سگریٹ بتایا جو اس کے دوست نے اسے سکھایا تھا۔ اب گڑیا اور اس کی دوست چھپ چھپ کر سگریٹ بھی پینا شروع ہو گئے۔ چونکہ یہ سہیلی اس کے محلے کے آخری گھروں میں رہتی تو ماں سے اجازت لے کر وہ وہاں چلی جاتی گھنٹوں دونوں سہیلیاں باتیں کرتی رہتیں۔ پھر انہوں نے DVD پلیئر پر فلمیں دیکھنا شروع کر دیں اور اس کی سہیلی نے پہلی بار اسے ایک بد اخلاق فلم دکھائی جو اس کے دوست نے اسے دیکھنے کو دی تھی۔ اسی دوران اس کی سہیلی کے پاس نئے موبائل اور پیسے کی فراوانی ہونا شروع ہوئی۔

گڑیا جو مرض خود کو لگوا چکی تھی اب کبھی کبھی جسم اس کا شدت سے تقاضہ کرتا۔ اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گڑیا کی دوست نے اسے اپنے ایک لڑکے دوست سے متعارف کرایا۔ یہ لڑکا بہت خوبصورت اور کسی بڑے باپ کا بیٹا تھا۔ اب گڑیا میٹرک میں پہنچ چکی تھی۔ جب اس نے پہلی بار اس لڑکے کے ساتھ پورا دن باہر گزارا۔ واپسی پر اس نے اسے اچھی خاصی رقم دی کہ اپنے لئے تحفہ لے لو۔ یہ سب کچھ گڑیا کو ایک خوبصورت خوابوں لگا۔ اس کا جانا آنا باہر شروع ہوگیا۔

نئے سال کی خوشی میں اس کے دوست نے کہا کہ ہم ایک پارٹی کرنے والے ہیں سب دوست ہوں گے تم اور تمہاری سہیلیاں ہوں گی بہت مزہ آئے گا۔ گڑیا اس پارٹی کو مس نہیں کرن چاہتی تھی۔ اس نے اپنی اسی سہیلی کے گھر رات رہنے کا بہانہ کیا۔ دونوں سہیلیاں وہاں گئیں وہاں بڑے گھرانوں کے بہت سے لڑکے تھے۔ وہاں پہلی بار گڑیا نے Beers کا ذائقہ چکھا۔ جو پینے میں تو بالکل اچھا نہیں تھا مگر اس کے دوست کے بے حد اصرار پر دو گھونٹ لئے اور پھر پورا گلاس پیا۔

یہ رات اس کے لئے خوبصورت ہوگئی۔ ان دونوں سہیلیوں کو گاڑی رات کو گھر چھوڑ گئی اور وہ بے سد ہو کر سوئیں۔ شاید گڑیا کی پچھلے 10 سالوں میں یہ پہلی رات تھی جس میں جسم تو شدید تھکا ہوا تھا مگر نیند پوری رات آئی اور سکون سے سوئی۔ کسی احساس ندامت نے اسے رات بے چین نہیں رکھا۔ اب اسے یہ راز مل چکا تھا کہ یہ بوتل غم بھلا دیتی ہے اور تکلیف کی شدت کو کم کرتی ہے اور شہر کے نوابوں سرداروں اور میر معتبر حضرات کیا بڑے یا نوجوان سب کو مارکیٹ میں ایک نیا، کم عمر اور بھرپور جذبات کا آئٹم صرف شراب کی ایک بوتل اور چرس کے ایک سگریٹ پر میسر تھا۔

آہستہ آہستہ گڑیا کو اپنے ہونے اور اپنے جسم کی اہمیت کا احساس ہونا شروع ہوا۔ تب اس نے ان تعلقات سے دنیاوی فائدے اٹھانا شروع کر دئے۔ اس کی ماں جو کہ بیوہ ہو چکی تھی۔ اس کی بڑی بہن اور اور دیگر افراد جو اسے آوارہ سمجھ کر اس سے بیزار ہو رہے تھے اب اس کے اختیارات اور تعلقات و آسائشوں سے فائدہ اٹھانے لگے۔ اکثر وہ جب بہت پریشان اور خود سے نادم ہو جاتی تو شراب زیادہ پیتی اور یہ وہ اپنی اسی پرانی سہیلی کے ساتھ اسکے گھر میں ہوتی۔ یا اپنے گھر رات بھر نشے میں دھت رہتی کیونکہ اسے اس کا ماضی بہت تکلیف دیتا تھا اور تھوڑی دیر ماضی اور حال سے نکلنے کا ایک راستہ تھا بے خودی۔

اب پورا شہر اس 18-19 سالہ لڑکی کو ایک آوارہ، بدچلن اور ہوس کی پجاری کے طور پر جانتا۔ وہ مدہوش کر رقص بہت خوبصورت کرتی۔ انسان کی ایک سرشت ہے کہ اسے اس کا ضمیر جھنجھوڑا کرتا ہے۔ اب اس کے لئے اکیلے رات گزارنا اور بغیر نشے کے رہنا ناسور کی طرح تھا۔ لیکن یہ بھی ایک عجیب کہانی ہے کہ نشہ انسان کی اصلیت کو سامنے لے آتا ہے اندر کے انسان کو ظاہر کر دیتا ہے اسی لئے کچھ لوگ نشے میں جانور اور کچھ لوگ نشے میں بھیڑ بن جاتے ہین۔ لیکن گڑیا جب نشے میں ہوتی تو انتہائی معصوم ہو جاتی۔ بہت روتی، ڈرتی کہ پتہ نہیں خدا اسے معاف کرے گا یا نہیں۔

اب سب کچھ کیسے بدلوں کہ میں انسانوں کی دلدل میں پھنس چکی ہوں۔ جب بہت روٹی تو نشے میں مجھے فون کرتی اور کہتی میرے لئے دعا کرتے ہونا۔ میں مرنا نہیں چاہتی میرے سینے میں اور پیٹ میں بہت درد ہوتا ہے۔ میں اسے دلاسہ دیتا کہ اس وقت وہ کچھ سوچنے سمجھنے اور سننے سے قاصر ہوتی۔ صرف وہ اپنا غم سنانا چاہتی۔ میں سن لیتا اور وہ فون پر بات کرتے کرتے خراٹے لینے لگ جاتی۔ پھر ایک دن پتہ چلا کہ کثرت شراب نوشی اور نشہ نے اس کے جگر اور گردوں پر اثر ڈالا ہے اور اب اسے درد کے انجکشن بھی اثر نہ کرتے۔ تو وہ شراب، چرس اور درد کے انجیکشن کا بے دریغ استعمال کرتی۔

اس کی سرخ و سفید رنگت اب پھیکی ہوتی جا رہی تھی جسے میک سے چھپاتی۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے اس کی اداس خوبصورتی کو اور بڑھاتے تھے۔ دنیا کے لئے وہ انتہائی اوباش، بدفعل لڑکی تھی ہر کوئی اس کا جو نام چاہتا رکھتا۔ خفیہ بیوروکریٹس، سرداروں کی محفل کی رونق، ماں کے لئے ATM، اس راستے میں نئی آنے والیوں کے لئے سیڑھی۔ لیکن خود کے لئے ایک اکیلا ڈری سہمی لڑکی بنتی جا رہی تھی۔ بس اسے ایک غم کھائے جاتا تھا وہ یہ کہ وہ مرنا نہیں چاہتی۔ اسے قبر سے ڈر لگتا ہے۔

ایسے ہی ایک روز وہ اپنی پرانی سہیلی کے گھر پر تھی اور شراب کی محفل چل رہی تھی کہ 22 سالہ گڑیا کو موت نے گلے لگا لیا۔ کئی لوگوں نے شکر کا سانس لیا جنہیں وہ میسر نہ تھی۔ کئی لوگوں نے شکر کا سانس لئے جو اس سے بلیک میل ہو رہے تھے اور کئی لوگ غمگین ہوئے کہ جیسی بھی تھی ایک نوجوان موت تھی۔ کئی مذہبی لوگوں نے کہا اسے کسی گڑھے میں پھینک دو اس کا تو جنازہ نہیں ہوگا۔ کئی لوگوں نے کہا اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانے کا مطلب مسلمان قبروں پر عذاب ہوگا۔

چونکہ ان دنوں میرا تعلق ایک اللہ والے سے تھا تو اس نے کچھ عرصہ قبل مجھے قبرستان میں بننے والے مختلف حلقوں کا مشاہدہ کرایا تھا۔ ان میں سے کچھ پر تو نور برستا محسوس ہوتا۔ کچھ ٹھنڈے۔ کچھ نہ اچھے نہ بڑے اور کچھ انتہائی گرم اور بے چین خطے تھے۔ اور انہوں نے بتایا جیسا جسم ہوتا ہے۔ ویسے خطے کی طرف وہ قدرتی بھیج دیا جاتا ہے اور کبھی ایس انہیں ہوا کہ نیک لوگوں کے قبروں کے درمیان کوئی بدکار پڑا ہو۔ وہ بدکار جس کی موت ایسی حالت میں ہوئی ہو۔ جب میں نے سند مانگی تو انہوں نے مجھے بدر کے میدان کی مثال دی کہ دنیا کی سب سے بڑی رحمت مغفرت اور جنتوں کے باغوں میں سے ایک ان مقرب ہستیوں کے مزار ہیں جو اصحاب بدر کہلاتے ہیں۔ لیکن وہیں پاس ہی ایک گڑھا ہے جس پر جہنم کے شعلے برستے ہیں اور وہ ان سرداروں کا مدفن ہیں جو آقاﷺ سے جنگ کرنے آئے تھے۔

اب میرا یہ خیال تھا کہ گڑیا کی قبر اس قبرستان کے فلاں حصے میں بنے گی کیونکہ اس نے ابھی ہوش نہیں سنبھالا تھا کہ وہ بے راہ روی کی منزلوں کو طے کرتے کرتے بھرپور جوانی میں شراب میں دھت مر گئی تھی۔ لیکن میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ اسے پورے قبرستان میں کہیں قبر نہیں ملی۔ بالآخر گورکن نے ایک آخری کوشش کی اور جہاں بڑی بڑی روحانی ہستیوں کی قبریں تھیں۔ قدرتی وہاں قبر مل گئی سب کچھ بہت آسانی سے ہوا اور جب اس گڑیا کا جنازہ آیا تو وہ پھول کی طرح ہلکی پھلکی تھی۔

اگر شریعت آڑے نہ ہوتی تو کوئی ایک بندہ اسے اٹھا کر میٹھی نیند سوئی ہوئی بچی کی طرح لحد میں لٹا سکتا تھا۔ لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں کہ ایک بدکردار عورت کو اتنے نیک لوگوں کے درمیان دفنا دیا ہے عذاب ملے گا اور وہاں ایک بزرگ کے چیلوں کو یقین ہوگیا کہ کچھ دنوں بعد وہ بزرگ غیظ و غضب میں انہیں خواب میں آ کر حکم دیں گے کہ اس فاحشہ کو یہاں سے نکالو۔ اس کی قبر کے شعلے ہمیں گرمی دیتے ہیں۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ لوگ آہستہ آہستہ اسے بھولنے لگے اور نامعلوم کیوں وہ سب کے ذہن سے جلد محو ہوگئی۔ شاید گندی تھی کوئی اسے سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ پھر میری آنکھوں نے ایک عجیب منظر دیکھا جو شخص ان اولیاء اللہ کے مزارات اور ان نیک لوگوں کے مزارات پر دعا کرنے آتا وہ گڑیا کی قبر پر بھی دعا کرتا قرآن پرھتا، چھڑکاؤ کرتا اور سب سے بڑھ کر اس کی قبر پر ہر وقت ہرے ہرے پتوں والی ٹہنیاں رکھ جاتے۔ چونکہ قبرستان کا یہ حصہ بہت سے نیک لوگوں کی آرامگاہ تھا۔ لہذا یہاں ہر وقت درود سلام کی محفل لگی رہتی خوب چہل پہل رہتی۔

مجھ سے یہ سب برداشت نہ ہوا۔ تو میں نے اپنے حضرت صاحب سے سارا ماجرا بیان کیا اور پوچھا اتنی گندی لڑکی اور اتنے نیک لوگوں کی صحبت ایسا کیوں۔ تو بابا جی نے ایک قہقہہ لگایا اور بولے۔ جانتے ہو حدیث پاک ہے کہ دنیا میں جو ناحق خون ہوگا اس کا ایک حصہ پہلے قاتل کو بھی ملے گا جو آدمؑ کا بیٹا تھا۔ اسی طرح بیٹا جو شخص کسی بھی شخص کو اچھائی یا برائی کی طرف راغب کرتا ہے وہ اس کے تمام اعمال میں سے حصہ پاتا ہے اور دوسرا تم نے سنا نہیں کہ نبی کریمﷺکے فرمان کے مطابق مفلس وہ شخص ہے جو کسی کی غیبت، بہتان اور عیب جوئی۔ کسی کو تکلیف دے تو اس کے اعمال اس گنہگار بندے کو اس غیبت، عیب جوئی اور اس کو بدنام کرنے کے عیوض دے دئے جاتے ہیں اور کسی کو بدنام کرنے اس کی عیب کرنے اس پر بہتان رکھنے والے کو وہی گناہ دے دیے جاتے ہیں جن کی وہ عیب جوئی اور چرچا کر رہا ہوتا ہے۔ اور وہ شخص چاہے حج، عمرے روزہ نماز ہی کرتا رہے۔ اس غیبت اور کسی کو بدنام کرنے کے بدلے اس کے اعمال اس سے چھن جاتے ہیں۔

وہ بچی جسے پوری دنیا نے بدنام کیا اس کی عزت اچھال خود کو نیک ثابت کرنے کو اسے بد معاش کہا ان سب کے اعمال لے کر یہ بچی اب پاک صاف ہوگئی ہے۔ ابھی اس کی طرف ایک بچھو رینگتا رینگتا جا رہا تھا تم نے جب اسے گندی لڑکی کہا نا۔ تو تمہارا مقبول عمل اسے مل گیا اور وہ بچھو تمہاری قبر کی طرف موڑ دیا گیا۔

اسرائیلیات میں ایک واقعہ ہے کہ جب موسیؑ کی بدعا سے قارون کو زمین میں دھنسا جانے لگا تو۔ اللہ نے یہ معاملہ موسیؑ اور قارون کے بیچ چھوڑ دیا کہ اگر موسیؑ اسے معاف کر دیں تو وہ بچ جائے گا۔ تو وہ جب موسیؑ کو بخشش کے لئے آواز دیتا موسیؑ اسے مزید گہرائی میں جانے کا زمین کو حکم دیتے۔ جب وہ زمین میں غرق ہوگیا۔ تو اللہ کریم نے ایک روز موسیؑ سے ارشاد فرمایا کہ موسی کیا آپ کو اس کی التجائیں سنائی نہیں دیتی تھیں آپ کو اس پر ترس نہیں آیا۔ موسیؑ خاموش ہو گئے۔ اللہ کریم نے ارشاد فرمایا کہ اگر وہ اسی التجا سے مجھے ایک بار بھی پکارتا۔ میں اس کو معاف کر دیتا۔ شاید گڑیا ہوس کی اس دنیا میں کہیں اپنے خدا کو التجا کر بیٹھی تھی۔ آج بھی اس کی قبر پر جائیں تو بے اختیار ہاتھ دعا کے لئے اٹھ جاتے ہیں اور دل کو سکون ملتا ہے۔ نامعلوم کتنے لوگ روزانہ اسے بازاری بدکار کہہ کر اس کو اپنے اجر اور نیک عمل آج بھی پہنچا رہے ہوں گے۔

ترجمہ: اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچتے رہو، کیوں کہ بعض گمان تو گناہ ہیں، اور ٹٹول بھی نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی سے غیبت کیا کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے سو اس کو تو تم ناپسند کرتے ہو، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہے۔ (الحجرات)

Check Also

Baray Maidan Ka Khilari

By Muhammad Saqib