Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saleem Zaman/
  4. Hamas, Israel Jang, Mukhtare Gal Wadh Gayi Aye

Hamas, Israel Jang, Mukhtare Gal Wadh Gayi Aye

حماس، اسرائیل جنگ، مختارے گل ودھ گئی اے

اگر آپ ایک مختصر سی نظر عالمی منظر نامہ پر ڈالیں تو یہ محسوس ہوگا کہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت گٹھ جوڑ مستقبل کےکسی خاص منظر نامہ کی طرف عالمی سوچ کو گھسیٹ رہا ہے۔ دنیا کے نہ حل ہونے والے تین بڑے مسائل یا تنازعات میں سے دو کا تعلق بھارت سے (کشمیر، لداخ) اور ایک کا تعلق اسرائیل سے (فلسطین) ہے اور باقی رہا امریکہ تو وہ صنعتکاروں کا عالمی غنڈہ ہے۔ جس کی وہ قیمت وصول کرتا ہے۔

اگر آپ اس وقت دنیا کی ضرورت کو سمجھتے ہیں تو یہ بھی جانتے ہوں گے کہ اب روایتی جنگ اور ہتھیاروں میں نہ تو اس حد تک منافع ہے اور نہ دنیا کے جدید ممالک اور تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت رکھنے والے ممالک کے پاس اتنا فالتو وقت کے وہ کتوں، ریچھوں اور سوورں کی لڑائی دیکھنے میں اپنا وقت ضائع کریں۔ روس اور یوکرائن کی جنگ نے ثابت کر دیا کہ روایتی جنگ سے زیادہ اہم غیر روایتی یعنی معاشی محاذوں پر فتح و شکست کا دارومدار ہے۔ جو یورپ نے بھگتا، اور آنے والی سردیوں سے قبل وہ اپنے معاملات کو بہتری کی طرف لے جائے گا۔ اب دنیا روایتی خطہ ارض کی حفاظت کی خاطر جنگ بے معنی ہو چکی ہے۔ اب ملٹی نیشنل کمپنیاں جنگ لڑ رہی ہیں۔ جن کی حکومتیں یا اقتدار براعظموں تک پھیلا ہوا ہے اور اس جنگ کا ہتھیار اور اوزار دنیا میں موجود 8 ارب لوگ ہیں جنہیں کسٹمر یا کنزیومر کہا جاتا ہے۔

لہذا اس حالت میں 2050 تک کے عالمی منظر نامہ میں دنیا کے ڈیڑھ صدی قدیم زمینی تنازعات کو حل کرکے منافع بخش مارکیٹ اور پرسکون گاہک تک رسائی اہم دفاعی ہدف ہے۔ اسی لیے دنیا کی تیزی سے پھیلتی معیشت بھارت اور چین نے کچھ مک مکا کر لئے ہیں جن میں شاید لداخ کا تنازعہ کا حل کچھ لو اور دو کی بنیاد پر ہو چکا ہے اور چین کی مٹی گرم ہونے کے بعد چین کے کاروباری دروازے کا سیکورٹی گارڈ پاکستان کشمیر کے معاملے میں آہستہ آہستہ خاموش ہو جائے گا یا کر دیا جائے گا۔ اسی طرح ایران سے عرب دوستی، اور اسرائیل سے تمام عرب ممالک کا ہاتھ ملانا۔ سفارتی افعال کی بحالی اس بات کا پیش خیمہ ہے کہ عربوں نے فلسطین بیچ دیا ہے۔

عجمی مسلمان ایک جذباتی قوم ہے اور عرب 4 ہزار سال سے تاجر اور دنیا کی تجارت میں اثر و رسوخ رکھنے والی اقوام ہیں۔ لہذا عجمی ارطغرل ڈرامہ دیکھنے کے بعد موٹر سائیکل بیچ کر ایک گھوڑا اور تلوار خرید رہے ہیں، جبکہ عرب اپنے کاروباری پارٹنرز کو نئے تجارتی ایونیو (مواقع) کھول کر دے رہے ہیں۔

اگر ایسا نہ ہوتا تو عالمی میڈیا پر اسرائیل کا سب سے بڑا قبضہ و اثر رسوخ ہے۔ لیکن اس وقت شدت سے تمام میڈیا فلسطین اور حماس کی بہادری کی داستانیں اسرائیلی فوجیوں کی کوٹ مار اور انہیں قید کرنے انکے ٹینک جلانے ان کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے، ان کی عورتوں اور بچوں کی آہ و بغا دکھا رہا ہے۔ جبکہ ہولوکاسٹ پر بات کرنا بھی ممکن نہیں۔ یہ وہ جواز ہے جو بکاو عربوں نے جان بوجھ کر اسرائیل کو سستے داموں فراہم کیا ہے تاکہ بس اسے بہانہ بنا کر فلسطین کے مسئلے کو یکبارگی ختم کر دیا جائے۔

جس طرح اسرائیلی اور امریکہ کے بھارت گٹھ جوڑ میں پلوامہ ڈرامہ، ممبئی حملے اور دیگر کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف ایک سوچی سمجھی میڈیا اور سیاسی جنگ لڑی گئی ہے۔ اسی طرح آج آپ سیاچین کا نام شاذ و نادر سنتے ہیں۔ جبکہ ایک وقت میں اس کو دنیا کی نظر میں لانے کے لئے ہو سکتا ہے کہ پاکستانی کالی بھیڑوں کو بھی استعمال کیا گیا ہو۔ اسی طرح سے پچھلے چند سالوں میں چین اور بھارت کے سرحدی تنازعات کی وافر ویڈیو آپ کو دیکھنے کو ملیں اور اب عالمی منظر پر ان باتوں کو ثانوی حیثیت سے بھی کم کر دیا گیا ہے۔

بالکل اسی طرح یہ اسرائیل اور فلسطین میں جو ہو رہا ہے وہ ٹام اینڈ جیری شو ہے جس میں ٹام (بلی) نے خون آلود چھری سے چوہے کاٹنے کے بعد مالک کو دکھانے کو وہ خون آلودہ چھری جیری (چوہے) کے ہاتھ میں دے دی اور خود اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بیٹھ گیا۔ اب عالمی حوالدار نے دیکھا اور اس کے کیمرہ نے دکھایا کہ چوہے نے سب قتل و غارت گری کی ہے۔ اب چوہے کو اس کی قیمت ادا کرنے پڑے گی۔

برائے مہربانی اس سب کچھ کو جہاد مت سمجھیں۔ ان کے مسائل کو پوسٹوں میں شئیر مت کریں۔ سروں پر کفن باندھ کر مت نکلیں کیونکہ مجھ سےاور آپ سے زیادہ اسلام اسرائیل اور فلسطین کے اردگرد رہنے والے مسلم ہمسایوں کو آتا ہے۔ وہ سب صرف اپنے چولے اٹھا کر بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ بالکل اس بندر کی طرح جسے بادشاہ بنا دیا گیا تھا اور لچے شیر نے لومڑی کا بیٹا کھا لیا۔ جب لومڑی فریاد لے کر بادشاہ سلامت کے سامنے گئی۔ تو بندر بن بادشاہ نے ادھر ادھر درختوں پر دوڑنا اور چھلانگیں لگانا شروع کر دیا۔ لومڑی کچھ دیر دیکھتی رہی پھر پوچھا بادشاہ سلامت آپ کیا کر رہے ہیں۔ تو باندر بن بادشاہ بولا تیرے مسئلے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہا ہوں۔

اگر آپ نے بدنام زمانہ یوال نوح ہرارے (مشہور زمانہ اسرائیلی مصنف) کی کتاب "سیپین" یا "اکیسویں صدی کے اکیس اصول" پڑھی ہو تو یہ بات آپ کو بہت آسانی سے سمجھ آجائے گی کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کا نقطہ نظر سرد جنگ سے معاشی جنگ اور معاشی دہشت گردی کی طرف مڑ چکا ہے اور عالمی تاجر جب پیسے کما رہے ہوں تو انہیں معاملات اس قدر پرسکون چاہئے ہوتے ہیں کہ جوتے میں بھی کنکر نہ چبھے۔ کجا وہ چند بدمعاش، دہشت گرد جہادی خطے جو انہوں نے کسی زمانے میں اسلحے کے کاروبار کے لئے خود بنائے تھے۔ اب انہیں مسمار کرکے اب آرٹیفشل انٹیلیجنس کے کاروبار ائیرکنڈیشنڈ ماحول میں کرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔

یوال کہتا ہے آگے آنے والے دنوں میں مذہب معیشت اور خدا پیسہ ہوگا۔ ایک مسلمان، عیسائی، ہندو یہودی اپنے اپنے علاقوں میں مذہب کے نام پر اپنی اشیاء بیچ کر شام کو لاس ویگاس کے کسینو میں جوا کھیلتے ہوئے۔ شراب کی چسکی سے ایک ساتھ لطف اندوز ہو رہے ہوں گے کیونکہ وہ تمام لوگ شئیر ہولڈر ہوں گے اس شہد کے جو مسلم ممالک میں اسلامی شہد، ہندو ممالک میں رام کی شہد اور عیسائی ممالک میں بیت اللحم کے درختوں سے چنی گئی مبارک شہد ہوگی۔

برائے مہربانی اسرائیل اور امریکہ کے زیر تسلط میڈیا جنگ کا ہتھیار نہ بنیں۔ وہ لوگ جو خالص ہو کر اللہ کی رضا اور نبی کریمﷺکے دین کی خاطر اس اسرائیل فلسطین تنازعہ میں خون نچھاور کر رہے ہیں، ان کے گھر بار اور عزت آبرو کے لئے بحثیت مسلمان دعا گو رہیں کیونکہ عنقریب آپ وہ دیکھیں گے، جس پر آپ کا دل خون کے آنسو روئے گا۔

اللہ کریم مسلمانوں کو ہدایت نصیب فرمائیں اور عالمی سازش میں شامل منافق مسلمان عہدے داروں کو نیست و نابود فرمایے جو محض دُنیاوی فوائد کے حصول کے لئے مسلمان گھروں کو آگ میں جھونک رہے ہیں۔

Check Also

Feminism Aur Hamari Jameaat

By Asad Ur Rehman