Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saleem Zaman/
  4. Ghazwa Shaib e Abi Talib

Ghazwa Shaib e Abi Talib

غزوہ شعب ابی طالب

سات نبوی کو قریش نے مسلمانوں کی بڑھتی تعداد اور اسلام کے تیزی سے پھیلاؤ سے گھبرا کر ابو طالب کے پاس پے در پے سردار قریش کے وفود بھیجے۔ جن میں شروع میں تو مصالحت اور win win situation بنانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن آخری دو وفود دھمکانا شروع ہوئے اور دبے الفاظ میں نبی کریم ﷺ کے قتل assassination جس میں تمام قبائل شامل ہوں گے کی دھمکیاں دے ڈالیں۔

جب سرداران قریش نے حضرت ابو طالب کو کہا کہ عمار بن ولید بن مغیرہ ایسے خوبرو، تنومند اور وجیہ و جمیل جوان شاعر کو حضرت ابو طالب کی فرزندی میں دینے کی کوشش کی تاکہ نبی کریم ﷺ کی حمایت سے دست بردار ہو جائیں اور آپ کو ان کے حوالے کر دیں۔ تو حضرت ابو طالب نے فرمایا۔ تم لوگ عجیب ہو! تم چاہتے ہو میں تمہارے بیٹے کو پالوں اور تم میرے بیٹے کو قتل کر دو۔ ایسا خدا کی قسم نہیں ہوگا۔

لیکن ابو طالب کی چھٹی حس نے انہیں ان کے مذموم مقاصد سے آگاہ کر دیا۔ اور ایک قبائلی سردار کی طرح آپ نے جنگی بنیادوں پر اپنے تمام قبیلہ بنو ہاشم کو جمع کیا اور انہیں غیرت دلائی کہ ہمارا بیٹا اگر ہمارے سامنے اہل قریش نے مار دیا تو یہ بنو ہاشم کی بے عزتی ہوگی۔ لہٰذا جو جو بنو ہاشم قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے۔ ناموس بنی ہاشم اور ماہ بنی ہاشم کی حفاظت اور قبائلی غیرت کا حق ادا کرے۔ لہٰذا تمام بنو ہاشم چاہے کہیں بھی تھا۔ شعب ابی طالب میں جمع ہوگیا۔

جو خواتین باہر بیاہی ہوئیں تھیں وہ بھی اپنے خاوند چھوڑ کر قبائلی حمیت کے لئے شعب ابی طالب جمع ہوگئیں۔ یہ اہل مکہ اور اہل قریش کے خلاف پہلی منظم حکمت عملی تھی جو بنو ہاشم نے تیار کی۔ بنو ہاشم جانتے تھے وہ اکیلے یہ جنگ نہیں جیت سکتے۔ لیکن غیرت سے کھڑے رہ سکتے ہیں یا غیرت اور جواں مردی سے مر سکتے ہیں۔ شعب ابی طالب ایک ایسا درہ ہے جس میں جانے کا ایک راستہ ہے اور آگے وہ وادی نما ہے جہاں ہر طرف سے پہاڑ ہیں۔ اور دشمن کو صرف سامنے سے ہی آنا پڑتا۔ لہٰذا اس راستے پر بنو ہاشم پہرہ دیتے۔

رات کو حضرت ابو طالب اپنے بیٹوں اور بنو ہاشم کے نوجوانوں کے درمیان آقا ﷺ کو سلاتے۔ پھر بھی رات میں تسلی نہ ہوتی تو اپنے بستر پر انہیں سلاتے اور خود ان کے بستر پر سو جاتے۔ یہ تین سال سخت ترین سال تھے۔ عرب نے سیاسی، معاشرتی اور معاشی مقاطعہ کر دیا۔ نہ بنو ہاشم سے کوئی ملتا، نہ شادی بیاہ کرتے۔ نہ ان سے تجارت کا سامان خریدتے اور نہ ان کو کچھ خریدنے دیتے۔ بنو ہاشم چاہے مسلمان تھے یا غیر مسلمان پتے کھانے اور مشک کا چمڑا ابال کر پینے پر مجبور تھے۔

لیکن اس جنگ کو ایک 84 سالہ ہاشمی سردار لڑ رہا تھا۔ اور یہ پہلی جنگ تھی جو ناموس رسالت کی خاطر لڑی جا رہی تھی۔ اور پورا قبیلہ محمد رسول اللہ ﷺ کی ناموس کے لئے کٹ مرنے، بھوکا مرنے گھر بار بیوی بچے اور خاوند چھوڑ کر میدانوں برسرپیکار ہوگیا۔ یہ پہلی جنگ معیشت، معاشرت اور بین الاقوامی تجارت کی تھی۔ اس جنگ کے جرنیل اور سیکنڈ ان کمانڈ دونوں زیرک ترین اور بین الاقوامی تاجر ہستیاں تھیں۔

ایک اپنی قوم کا دفاع کر رہا تھا اس قوم کا جو اس کے بھتیجے کے لئے کٹ مرنے کو تیار تھی۔ اور دوسری اپنے خاوند کی ناموس کی حفاظت فرما رہیں تھیں۔ تین سال کی بھوک افلاس اور معاشی مقاطعہ کے باوجود collateral damage نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ تجربہ ہے۔ اپنی قوم کو راہ روشن تک پہنچا کر جرنیل اور ان کی وزیر نے اپنے آقا ﷺ سے اجازت چاہی۔ اور داعی اجل کو لبیک کہا۔ اس نظریاتی اور اصولوں پر مبنی جنگ میں حضرت ابو طالب اور ان کا قبیلہ کامیاب ہوا۔ آخر قریش کو مسلمانوں کو ایک حقیقت کے طور پر ایک نئی ابھرتی قوت تسلیم کرنا پڑا۔ میری نظر میں یہ جنگ بالکل شطرنج کے اصولوں پر لڑی گئی۔ جس میں بادشاہ کا تحفظ ہر قیمت پر کیا جاتا ہے۔

جب مسلمان اور بنو ہاشم شعب ابی طالب سے نکلے تو قریش کے ہمنوا اور حلیف غیر مسلمانوں نے تلواروں کے سائے میں انہیں ان کے گھروں تک پہنچایا۔ تاکہ کسی کو سوئی بھی نہ چبھے۔ شاید ابو طالب جو کہ ایک تجارتی معاشرے کے سربراہ تھے اور اماں خدیجہ جو اس تجارتی معاشرے کی روح رواں تھی۔ اپنی ثابت قدمی، زیرک معاشی حکمت عملی سے یہ معاشی اور معاشرتی جنگ جتوا چکے تھے لہٰذا اب ان کے آرام کا وقت تھا۔ اور نئے نوجوانوں کی آزمائش و جدوجہد کا ایک دور شروع ہونے والا تھا۔

میرے نزدیک یہ 3 سال پر محیط معاشی اور معاشرتی جنگ اسی لئے لڑی گئی کہ آنے والے دور میں اسلحہ جنگ کا حصہ نہیں رہنا تھا۔ بلکہ معاشی پالیسیاں گلوبل جنگ اور معاشرت کی فتح بننے والے تھے۔ یہ آنے والے گلوبل ملٹی نیشنل اداروں کی جنگ میں ثابت قدمی اور غیرت کی ایک مثال ہے کہ آنے والے دور میں جنگیں اعصابی ہوں گی اور سالوں پر محیط ہوں گی۔

ہمارے پڑوس میں چین کی اعصاب شکن محنت اور استقامت نے یہ جنگ جیت لی ہے۔ اور اب بھارت اس ڈگر پر چل پڑا ہے۔ ہم جو اس سب کے وارث تھے۔ اب بھی سبق نہیں سیکھ پائے۔ آج دنیا ایک نئی اصطلاح economic Hit man (معاشی قاتل) جانتی ہے۔ جس کا مطلب یہ باقاعدہ جنگی بنیادوں پر کسی معاشرے میں جا کر معیشت کا قتل عام کرتے ہیں۔ خدارا اپنی مذہبی اصطلاحات پر دوبارہ سے غور کریں۔

اس جنگ میں عالم اسلام اور خصوصاََ اہل پاکستان کے لئے سبق ہے۔

Check Also

Feminism Aur Hamari Jameaat

By Asad Ur Rehman