Duboya Mujhko Hone Ne
ڈبویا مجھ کو ہونے نے
آج بہت دنوں بعد مجھے بابا جی سے ملاقات میں تنہائی میسر آئی۔۔ وہ کرسی پر بیٹھے سگار سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔۔
میں نے کہا بابا جی۔۔ پیر دبا دوں۔۔
بولے۔۔ کیوں!
میں نے کہا۔۔ دل کر رہا ہے!
کہنے لگے کسی ایک حدیث میں یہ بتا دو کہ نبی ﷺ کی محفل میں نبی کریم ﷺکے پیر یا کندھے یا ہاتھ صحابہ کرام دبا رہے ہوں۔ اور وہ ٹانگیں پھیلائے بیٹھے ہوں؟
میں نے کہا مجھے علم نہیں۔۔
بولے۔ کیا آج کے کسی مرید کا عشق صحابہ کرام سے زیادہ ہے یا کسی بابے کا درجہ نبی مکرم ﷺ سے زیادہ جو یہ طریقہ اختیار کر لیا ہے کہ تمام دن پیر صاحب کو مرید مالش چاپی کر رہے ہوتے ہیں؟ اور اس خدمت کو دین کی خدمت سمجھتے ہیں؟ یہ ہندو دھرم کا حصہ ہے اسلام ایسی ذلت پسندی سے انسان کو نکالنا چاہتا ہے۔۔
میں نے کہا بابا جی میرا دل کر رہا ہے!
بولے تمہارے دل کی خاطر نبی کریم کا دل توڑ دوں۔۔ جبکہ تم نفس کی خواہش پوری کرنا چاہ رہے ہو اور نبی کریمﷺ نے مجھے یہ کرسی ان کے دین کی خدمت کے لئے دی ہے۔۔ چاہئے تو یہ کہ میں تمہاری خدمت کروں۔۔ جیسا نبی کریمﷺ نے حضرت بلالؓ کی فرمائی۔ جب وہ ایمان نہیں لائے تھے ابھی۔۔ ان کی چکی پیسی، ان کو بخار میں گرم گرم دودھ پلایا۔۔ ان کو بستر پر سلایا، شاید ماتھا بھی سہلایا ہو شاید ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر کافی دیر حضرت بلال کی حرارت کو اپنے ہاتھوں میں منتقل کرکے ان سے بخار دور کیا ہو۔۔
میں نے کہا میرا دل کرتا ہے میں آپ کی خدمت کروں۔۔
بابا جی بولے۔۔ میری خدمت کی بجائے نبی کریمﷺ کی امت کی خدمت کرو۔ چلو ایسا کرتے ہیں۔۔ میں تمہیں یہ موقع دیتا ہوں کہ تم میری خدمت نبی کریمﷺ کا امتی سمجھ کر کر دو۔۔ کہ تمہارا باپ نہیں۔۔ تم میری تکلیف میں میری خدمت کر دو۔۔ اللہ اور اس کا نبی مکرم تم سے راضی ہو۔۔ آجاؤ۔۔
میں آگے بڑھا کہ ان کے پیر دبا سکوں۔۔
جیسے ہی میں قریب ہوا انہوں نے میرا سر پکڑ کر اپنے زانوں پر رکھ لیا اور میرے سر پر ہاتھ پکڑنے لگے۔۔ مجھے سکون آنا شروع ہوگیا۔۔ بولے بیٹا ایک بات کہوں یاد رکھو گے!
میں نے کہا۔۔ جی بابا۔۔ آپ کہیں۔۔
بولے۔۔ بیٹا تم درگزر اور معافی کا مطلب جانتے ہو۔۔
میں نے کہا درگزر کا مطلب کسی کی غلطی دیکھ کر بھی اسے شفقت سے کچھ نہ کہنا در گزر ہے۔ اور معافی کا مطلب اس کی غلطی دیکھ کر اس پر باز پرس (پوچھنا)کرنا کہ یہ کیوں کی اور اس پر سزا سے قبل اسے اصلاح کا ایک موقع دینا۔۔
بابا جی نے ایک لمبا۔۔ ہمممم کیا۔۔
بولے تم جانتے ہو کچھ غلطیوں کی نہ معافی ہے اور نہ ہی ان سے درگزر کیا جائے گا۔۔ ان کا انتقام لیا جائے گا۔۔
میں نے چونک کر ان کے گھٹنے سے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔۔ تو انہوں نے بڑے دکھ والے انداز میں سر اثبات میں سر ہلایا۔۔ بولے۔۔ بچے۔۔ معافی ان تمام گناہوں پر لازم ہے جو انسان خدا کی مخلوق کے ساتھ کرتا ہے۔۔ درگزر شاید ان گناہوں میں ہے جو انسان اعلانیہ نہ کرے اور شرم سے یا کمزوری سے چھپ کر کرے یا ہو جائے اور شاید حقوق اللہ پر وہ درگزر کر جائے۔۔
لیکن کچھ گناہ ایسے ہیں جس کا رب نے eraser، یا ڈیلیٹ یا undo نہیں بنایا ان کے ہو جانے کے بعد ان کا بدلہ دنیا سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔۔ انہیں شامت اعمال کہا جاتا ہے۔۔
میں نے پریشانی میں دوبارہ ان کے گٹھنے سے سر لگا لیا۔ اور وہ میرے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگے۔۔ ان کی انگلیوں سے سگار کی بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی۔۔
بولے۔۔ یہ شامت اعمال دراصل انسان کے فائدے کے لئے ہے۔۔ اس سے ایسا سبق ملتا ہے جو کسی خاندان میں نسلوں تک چلتا ہے۔۔
جانتے ہو، ان گناہوں میں جن کی شامت اعمال دنیا سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔۔ اس میں عورت کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔۔ جہاں جس صورت میں کائنات میں عورت degrade ہوئی۔ بے عزت یا بے آبرو ہوئی وہ عمل ضرور شامت اعمال کا حصہ بن گیا۔۔
وہ کیسے باباجی۔۔ میں نے آنکھیں بند کئے ہوئے پوچھا۔۔
بولے بیٹا، شرک کے بعد ماں باپ کا دل دکھانا۔۔ ایسا گناہ ہے کہ جس میں جب تک اولاد اس دنیا میں اس کا بدلہ نہ دیکھ لے مرے گا نہیں۔۔ لیکن ماں باپ کے بعد جن تین ہستیوں سے زیادتی، بے انصافی اور انہیں اذیت دینے کا عذاب دنیا میں لازمی دیکھنا ہوگا۔۔
وہ کون تین لوگ بابا جی۔۔ میں نے ان کا گھٹنا چومتے ہوئے کہا۔۔
بابا جی بولے۔ میں اپنے مرشد کے ساتھ ایک دن یونہی تنہائی میں بیٹھا تھا تو وہ بولے۔۔ پتر۔ تم جانتے ہو وہ تمام جانور جو پالتو ہوتے ہیں۔۔ اگر آپ ان پر ظلم کریں تو ان کی آہ و فریاد کرتے ہوئے اللہ اور ان کے درمیان سے پردہ اٹھ جاتا ہے۔ اور ان پر کی ہوئی زیادہ کا بدلہ اللہ کریم خود لیتے ہیں۔۔ کیونکہ جب اللہ کسی کو کسی کے دروازے کا محتاج کرتا ہے تو پھر اپنے عزت اور جلال کی قسم کھا کر کہتا ہے اگر یہ اس کا خیال رکھے گا تو میں اس کا خیال رکھوں گا اور اگر یہ اسے تنگ کرے گا تو میں اس کا بدلہ لوں گا۔۔ بیٹا۔۔ پالتو جانور کے بعد اللہ کریم اس بیوی کی فریاد کو ایسے ہی سننتا ہے جس کے ساتھ خاوند زیادتی کرتا ہو جبکہ وہ اس کی محتاج ہو۔۔ اس عورت کی فریاد اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔ اور اس مرد کو یہ دنیا میں سے ہی بھگتا پڑے گا۔۔
دوسرا بہن ہے جب اس کے باپ کا سایہ سر سے اٹھ جائے اور وہ بھائی کے رحم کرم پر ہو۔۔
اور تیسری بیٹی ہے۔۔ اسی لئے تو نبی مکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ بیٹی کی اپنی اوقات کے مطابق اچھی پرورش کرنے والا قیامت کے دن میرے ساتھ یوں ہوگا اور اپنی دو انگلیوں کو جوڑ کر دکھایا۔ اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جب کسی گھر میں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اللہ کریم اعلان فرماتے ہیں کہ اس کو بتا دو اس کی ممد و معاون میں ہوں۔۔
میری آنکھوں کے سامنے اس ہندو معاشرے کی تمام روایات کے تمام اثرات واضح ہونا شروع ہو گئے۔۔ جسے ہم برصغیر میں اسلام کے نام پر اوڑھے ہوئے ہیں۔۔ میں سوچتے ہوئے نیند کی آغوش میں جانے لگا کہ شاید برصغیر میں مرد اسی لئے ذلیل و خوار ہو رہا ہے کہ وہ شامت اعمال کا شکار ہے۔۔ سب کچھ کرتے ہوئے صبح شام محنت کرتے ہوئے بھی اس کی بات بن نہیں رہی شاید وہ جسے کمتر سمجھ رہا ہے۔۔ خدا وہیں جڑا ہوا ہے۔۔
اتنے میں چند اور افراد کمرے میں داخل ہوئے اور ان کے بلند سلام سے میں چونک پڑا۔ اور آنکھیں کھل گئی۔۔