Bhuri Aankhon Ne Sone Nahi Diya
بھوری آنکھوں نے سونے نہیں دیا
ڈیڑھ کتاب پڑھ کر اور چند شمع بینی کی مشقوں کے بعد شدید ایام نوجوانی میں میرا یہ خیال تھا کہ اب کوئی علمی اور روحانی شخصیت میرے آگے ٹک نہیں سکتی۔ انہی دنوں میں میرے ایک دوست نے ایک اللہ والے کا پتہ دیا کہ وہ بہت نیک اور سادہ شخص ہیں تو میں نے کہا مجھے ملواؤ۔ میں ان کا بھانڈا پھوڑ دوں گا کہ کتنی علمیت اور روحانیت ہے ان میں۔ خیر یہ طے پایا کہ ان سے ملنے سیالکوٹ جائیں گے۔ جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو بہت صاف پاکیزہ شخصیت محسوس ہوئی۔ اب میں ان کی آنکھوں میں جھانکنا چاہتا تھا تاکہ میری شمع بین آنکھیں ان کی آنکھوں کو پرکھ سکیں اور مجھے پتہ چلے کہ یہ سچے ہیں یا لوگ غلط سمجھ رہے ہیں۔
انہوں نے نہایت بزرگ کا قصہ سنانا شروع کیا کہ کسی طرح ان بزرگ نے نماز میں جب سلام پھیرا تو جس طرف رخ کیا ان نمازیوں کو قرآن حفظ ہوگیا۔ اب یہ بات کرتے ہوئے انہوں نے نماز کے سلام کی طرح سیدھے اور الٹے جانب رخ کرکے السلام علیکم و رحمتہ اللہ کہا۔ تو میں ان کے دائیں جانب بیٹھا تھا۔ جب ان کا رخ میری طرف ہوا تو میری آنکھیں ان کی آنکھوں سے ٹکرائیں۔ انہوں نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے جب سلام کیا تو مجھے ایسے لگا جیسے میری آنکھوں کے ساتھ میرا دماغ بھک سے اڑ گیا۔
مجھے بس اتنا یاد رہا کہ چند سیکنڈ میں انکی آنکھوں میں نہ دیکھ سکا۔ اسکے بعد میں ایک روبورٹ کی طرح پتھرائی آنکھوں کے ساتھ کوئٹہ آیا۔ ایک ہفتہ خلاء میں گھومنے کی کیفیت رہی اور کچھ سمجھ نہ آتا۔ پھر آہستہ آہستہ آرام آنا شروع ہوا۔ لیکن اس کے بعد مجھ میں ایک تبدیلی آ گئی۔ میں کسی سے آنکھیں ملا کر بات نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن جس کو آنکھ بھر کر دیکھ لیتا وہ پھر مجھ سے کہیں جا نہیں سکتا تھا اور اس کا میں نے ایام جہالت میں خوب استعمال کیا۔
جب کوئی پسند آیا تو اس انتظار میں رہا کہ وہ کب میری آنکھوں میں دیکھے گا اور پھر اسکے لئے مجھ سے جانا مشکل ہو جاتا۔ بہت مزے کا نسخہ ہاتھ آ گیا تھا۔ ایک نوجوان اور کیا۔ مانگے! "دو آنکھیں" وہ بھی باتیں کرتی۔ تو خوب جوانی گزر رہی تھی، اس دوران بہت سے ملکوں میں بھی جانا ہوا یہ آنکھ ملانے کا نسخہ ہر مذہب کی دوشیزہ پر کارگر تھا۔ اب ہر دنیاوی اچھائی کے ساتھ کچھ منفیت بھی ہوتی ہے تو ایک بات جس نے مجھے کسی بھی دوشیزہ بلا تخصیص رنگ و نسل و مذہب سے محبت اور ان کی زلفوں کا اسیر بن جانے سے روکا۔ وہ بھی قصور ان کی آنکھوں کا تھا۔
کہ جو وہ چھپانا چاہتی تھیں اور خود سے بھی وہ باتیں نہ کرنا چاہتیں وہ بھی ان کی آنکھیں مجھے کہہ دیتیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں خواتین سے کترانے لگا کہ بظاہر ہنستی مست آنکھوں کے پیچھے بعض اوقات مردے ہوتے اور مجھے مرے ہوئے لوگوں کو باتیں کرتے دیکھ کر ڈر لگتا، اور ان کے چہرے پھر یوں لگتے جیسے مردے کو میک اپ کرکے لایا گیا ہے۔ تو بھری نوجوانی میں مجھے اس دھندے سے توبہ زبردستی کرائی گئی جس کا مجھے ہمیشہ گلہ رہے گا۔
جب مجھے کوئی بھی پسند آیا تو میں نے اپنے چند لمحے اچھے گزارنے کے لئے اس کی آنکھوں میں جھانکنا چھوڑ دیا۔ کچھ کام بن گیا۔ لیکن ایک مرتبہ میں سیالکوٹ انہی حضرت صاحب کے ساتھ بیٹھا تھا اس زمانے میں میرے دل میں یہ سوال اٹھا "اللہ کہتا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کے منہ پر مہر ہوگی اور ان کے ہاتھ اور پیر بولیں گے یہ کیسے ہوتا ہے؟" تو بابا جان بولے بیٹا وہاں ضروری نہیں زبان سے بولا جائے۔ ایک اور ذریعہ بھی ہے گفتگو کا۔ جس میں درخت اور پتھر نبی کریم ﷺ کو سلام کیا کرتے تھے اور آقا ﷺ انہیں سنا کرتے تھے۔ اور جواب بھی عطا فرماتے۔
میں خاموش رہا کیونکہ میں بھی سوچ رہا تھا جس کا انہوں نے زبان سے جواب دیا۔ تو بات سمجھ آ گئی۔ لیکن اس کا ایک بہت ہی بڑا اثر مجھ پر آنے والے سالوں میں رہا۔ اب میں آنکھیں تو نہیں دیکھتا تھا مگر محبت میں جس مرد یا عورت کا ہاتھ پکڑ لیتا یا اسے کے ہاتھوں کو غور سے دیکھتا۔ بہت سی باتیں مزید آشکار ہونا شروع ہوگئیں۔ اب آنکھوں کو تو دیکھتا نہیں تھا ہاتھوں سے بھی نظریں چرانے لگا۔
خیر، زندگی چلتی رہی اپنی ان دونوں نعمتوں کو جس قدر استعمال کرتا گیا، لوگوں میں جھانکتا گیا آہستہ آہستہ یہ نعمتیں زحمت بنتی گئیں۔ نفس اور روح چونکہ اعمال کے وزن سے بوجھل ہوتی گئیں تو نعمت جاتی رہی اس کی جگہ نفس نے لے لی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب نہ کسی کی آنکھیں بھولتیں اور نہ ہاتھ اور عمر بھی اب ادھیڑ عمری میں ڈھل رہی تھی تو اپنا جھوٹا بھرم رکھنے کے لئے جھوٹے کشف کا سہارا لینا شروع کیا جس کا نتیجہ خواتین و حضرات پر شدید بہتان طرازی بنتا گیا۔
کیونکہ اب اپنے طور پر کسی کے متعلق رائے قائم کرتا جس میں کسی بھی قسم کی روحانی واردات کا حصہ نہ ہوتا۔ بابا جان بھی وفات پا گئے۔ تو ان کی وفات سے پہلے وہ کوئٹہ آئے اور مجھے خبردار کر گئے کہ لوگوں پر بہتان لگانا چھوڑ دو۔ خواتین کو تنگ مت کرو اور ساتھ ہی فرمایا کہ اب تم ایک عام آدمی کی طرح زندگی بسر کرو اور اللہ سے اپنے کئے کی معافی مانگا کرو۔ گزشتہ 10 سال سے پھر کوئی بھی آنکھ نہ مجھ سے بولی نہ ہی ہاتھوں نے کارستانیاں بیان کیں۔
کل رات دوستوں کے ہمراہ کھانا کھا کر واپس آ رہا تھا تو جو کھانا بچ گیا تھا اسے ہم دوستوں نے یہ اصول بنا لیا ہے کہ پیک کرا کر کسی بھی غریب کو دے دیا کریں گے۔ کیونکہ ہم نے سنا ہے اس کھانے پینے کا اللہ حساب نہیں لیں گے جس میں غریب، مفلس اور نادار کا حصہ ہو۔ تو وہ پیک کھانا ایک ریلوے لائیں پر بیٹھی ہوئی ایک خاتون بھکارن کو دینے کے لئے گاڑی اس کے قریب روکی تو پیچھے آنے والی گاڑی کی روشنی میں اس عورت کا سراپا نظر آیا۔
ڈری سمٹی ایک پٹھانی ملبوس میں چھپی ہوئی ایک خاتون تھی عمر جس کی 30 سے 35 سال کے لگ بھگ ہوگی۔ چہرہ اور پورا جسم بڑی چادر سے چھپایا ہوا تھا۔ جب دوست نے اسے کھانے کا پیکٹ دیا تو اس نے جھپٹ کر اسے پکڑا اس دوران میری آنکھیں اس خاتون کی آنکھوں سے ٹکرائیں۔ اس کی ہلکی بھوری آنکھیں جن کے گرد لمبی پلکیں تھیں، آنکھیوں کا سفید حصہ یوں شفاف تھا جیسے کسی ماڈل کا ہو۔
اور بھوری آنکھوں کی پتلیوں میں دھاریاں تھیں جو کسی بھی جدید فیشنی کانٹیکٹ لینس سے زیادہ خوبصورت تھیں۔ سوائے ان آنکھوں اور ان کے گرد بھوک اور افلاس کے ہلکوں کے اس کے جسم کا کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میری اس سے آنکھیں ٹکرائیں اس نے مجھے دیکھا اور میں اس کی آنکھوں کے پیچھے چھپی گہری اداسی، مایوسی اور لوگوں کی ہوس کے خوف کو بھانپ گیا، وہ کہہ رہی تھیں میں اب اور کیا کیا چھپاؤں۔
اس کی آنکھوں نے مجھے کہا بوڑھا ہو یا جوان پیسے خدا کے نام پر دینے کی بجائے مجھے دیکھنے کی قیمت چکاتا ہے۔ شاید ہی کوئی میری مدد خدا واسطے کرتا ہو۔ رات کے اس اندھیرے میں آ کر بیٹھتی ہوں تاکہ لوگ میرے گھر خاندان کو نہ پہچانیں۔ تم سچ کہو سلیمی کیا میری آنکھیں تمہیں یہ نہیں بتاتیں کہ میں پیشہ ور نہیں۔ میری آنکھیں کیا یہ نہیں بتا رہیں کہ میں خاندانی عورت ہوں۔ ہاں اگر کہیں میں ٹوٹ جاؤں تو گھر کی بھوک کوئی نہیں دیکھتا؟
میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ جس دن ہم نے لوگوں کی آنکھوں میں جھانکنا شروع کر دیا اور آنکھیں پڑھ سکے۔ شاید بہت سے جسم مجروح ہونے سے بچ جائیں گے اور بہت سی عزتیں پائمال ہونے سے پہلے سامنے والے کی نگاہوں کو جھکا دیں گی۔ لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ ہماری آنکھیں جسموں کو دیکھنے، پڑھنے کے بجائے، آنکھوں میں جھانکیں آنکھیں جھوٹ نہیں بول سکتیں۔ کیونکہ انہیں چھپانا نہیں آتا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اگر ہماری آنکھیں ہی ہوش زدہ ہوں۔ تو پھر ان بھوری آنکھوں کی خوبصورتی نظر آتی ہے۔ ان کے پیچھے کا منظر دھندلا ہو جاتا ہے۔
یقین کریں میری ہوس زدہ آنکھوں کو کل رات ان بھوری آنکھوں نے تمام رات سونے نہیں دیا۔