Bandar Aur Khinzir (2)
بندر اور خنزیر (2)
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح میں عبداللہ بن مسعودؓ سے بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم ﷺ سے کہا کہ اے اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ یہ بندر اور خنزیر وہی انہیں میں سے ہیں جنہیں مسخ کیا گيا تھا؟
تو نبی ﷺ نے فرمایا: بلاشبہ اللہ عزوجل مسخ کیۓ گۓ کی نسل نہیں بناتا اور نہ ہی اس کی کوئی اولاد ہوتی ہے، اور بلاشبہ بندر اور خنزیر تو پہلے ہی موجود تھے۔ (صحیح مسلم)
انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ کاموں کا ارتکاب کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی سزا میں انہیں مسخ کر دیا، اور پھر یہ سزا صرف بنی اسرائیل کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (قیامت سے قبل مسخ اور زمین میں دھنسنا پتھروں کی بارش ہوگی) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر (4059) اور صحیح ابن ماجہ (3280)۔
رسول اللہ ﷺ نے جو علامات قیامت بیان فرمائی ہیں وہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں ایک یہ ہے:
"مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میری امت کے کچھ لوگ اکل و شرب، لہو و لعب اور فخر و غرور میں شب باشی کریں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں بندر اور خنزیر بنا دیں گے۔ ان کا جرم یہ ہوگا:
(1) اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء بالخصوص شراب کو اپنے لئے حلال سمجھیں گے۔
(2) بازاری عورتوں اور رقاصاؤں سے تعلق رکھیں گے۔
(3) سود خوری اور ریشم پوشی کو وطیرہ زندگی بنائیں گے۔
(4) آلات موسیقی کو بکثرت استعمال کریں گے۔
(مسند امام احمد: 5/329)
یہ احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ اس امت میں بھی کچھ معصیت اور گناہوں کی سزا مسخ یعنی شکلوں کا بگاڑ ہوگا۔ اکثریتی مفسرین چہرے مسخ ہونا اصل صورت کے بگڑنے کو لیتے ہیں، لیکن بعض مفسرین کی رائے ہے کہ احکام الٰہی کی نافرمانی کرنے والوں کے جسم مسخ نہیں ہوئے تھے، بلکہ صرف اخلاق و کردار اور عادات و اطوار بگڑ گئے تھے۔ سر سید احمد خان لکھتے ہیں:
"(کُونُواْ قِرَدَۃً) ہو جاؤ بندر اس کی تفسیر میں بھی ہمارے علمائے مفسرین نے عجیب و غریب باتیں بیان کی ہیں اور لکھا کہ وہ لوگ سچ مچ صورت و شکل میں خاصیت میں بھی بندر ہو گئے تھے۔ مگر یہ تمام باتیں لغو و خرافات ہیں۔ خدائے پاک کے کلام پاک کا یہ مطلب نہیں ہے۔ "
بعض مفسرین نے بھی ان کے سچ مچ کے بندر ہو جانے سے انکار کیا ہے، جس کو ہم بطور تائید اپنے کلام کے اس مقام پر نقل کرتے ہیں، بیضاوی میں لکھا ہے:
مجاہد کا قول ہے کہ ان کی صورتیں بندر کی سی نہیں ہوگئی تھیں بلکہ ان کے دل بندروں سے ہوگئے تھے، اور اس لیے بندروں کے ساتھ ان کو تشبیہ دی ہے، جیسے کہ خدا نے سورہ جمعہ میں گدھے کے ساتھ اپنے اس قول میں کہ ان کی مثال گدھے کی ہے جس پر کتابیں لدی ہوں، تشبیہ دی ہے"۔
(تفسیر القرآن وھو الھدی والفرقان)
اسی طرح مولانا وحیدالدین خان نے بھی الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ اس بات کو اپنے مخصوص انداز میں اس طرح تحریر کیا ہے:
"قانون سبت کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ یہی معاملہ کیا گیا، اللہ نے ان کو بندر بنا دیا، کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی صورت بندروں کی صورت ہوگئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا اخلاق بندروں جیسا ہوگیا۔ ان کا دل اور ان کی سوچ انسانوں کے بجائے بندر جیسے ہوگئی۔ "
الغرض انسان خدا کی ایک ایسی مخلوق ہے جسے اس دنیا میں بااختیار و باشعور مخلوق بنا کر بھیجا گیا ہے اور اسے فقط احکام الٰہی کا پابند بنا دیا گیا ہے۔ لیکن جس انسان نے احکام الٰہی کی پابندی سے خود کو آزاد کیا اور اپنے خدا سے کئے ہوئے عہد و پیمان کو توڑ دیا اور حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنانے کی سعی میں لگ گیا تو پھر اللہ تعالیٰ اس طرح کے انسانوں کو ان کی نافرمانی کی نوعیت کے مطابق الگ الگ طریقوں سے الگ الگ قسم کا عذاب دیتا ہے۔
آج اگر ہم اپنے گریبان اور اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ جنسی اعمال ہوں یا معاملات ان تمام میں حد درجہ جانوروں کے مشابہ اعمال کو ترجیح دے رہا ہیں۔ جو اس بات کی تائید کرتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے آمد کے بعد اللہ کریم نے ان کی امت کا پردہ رکھا ہے کہ ان کے چہرے مسخ نہیں کئے۔ تاکہ دیگر اقوام کے آگے امت محمدیہ رسوا نہ ہو مگر اعمال و افعال میں ہم میں مختلف جانور بسے ہوئے ہیں۔
کہیں ہم بھیڑیوں جیسے حق کھاتے ہیں۔ کہیں ہم جانوروں کی طرح اپنی جنسی خواہشات پوری کرنے کے لئے اپنے پرائے محرم، بچے اور مردہ عورت کی بھی پرواہ نہیں کرتے، کہیں ہم لومڑی کی طرح صرف اپنے نفس کی خواہش پوری کرنے میں کسی کا شدید بڑا نقصان کرا دیتے ہیں۔ کہیں ہم برسوں کا ساتھ چھوٹے سے نفع کی خاطر ڈس کر آستین کا سانپ ثابت ہوتے ہیں۔ کہیں ہم اپنے مفادات کی خاطر کتے کی طرح تلوے چاٹتے ہیں اور مفادات کے حصول تک کتے کی طرح زبان نکالے دم ہلاتے چاپلوسی کرتے ہیں۔ کہنے ہم اپنے پرائے کی تمیز کئے بغیر بچھو کی طرح سب کو ڈنگ مارتے ہیں۔
آج کل نوجوان بچوں میں بانجھ پن اور اولاد نہ ہونے سے میں اکثر خوف زدہ ہو جاتا ہوں۔ کیونکہ مغضوب قوموں کو جب جانور بنا دیا جاتا ہے پھر ان کی نسل آگے نہیں چلنے دی جاتی۔ پتہ نہیں ہماری اولاد ہمارے کون سے اعمال کی سزا بھگت رہے ہوں۔ ماتھے پر محراب، الحاج ہونے سے اپنے کاروبار کا نام مکہ مدینہ رکھ لینے سے، رشوت، چوری اور حقوق پر ڈاکہ ڈال کر عمرہ و حج کرنے سے مسلمان نہیں ہوا جاتا۔ اندر کا جانور مارنا دراصل ایمان ہے۔ ورنہ جب زمین پر کعبہ کا طواف کرنے والے انسان نہیں تھے تو اللہ کی مخلوقات اور جانور بھی اپنی تمام جبلت اور وحشی پن کے باجود طواف کیا کرتے تھے۔
اللہ کریم نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا تھا مگر ہم نے پست سے پست ہونے کو ترجیح دی۔
ترجمہ: بے شک ہم نے انسان کو بڑے عمدہ انداز میں پیدا کیا ہے۔ پھر ہم نے اسے سب سے نیچے پھینک دیا ہے۔ (التین)
اللہ کریم نے اپنے نبی کریم ﷺ کو بھیجا ہی اس لئے کہ انسانوں کے اندر کا جانور مار کر انہیں انسانیت کے درجے پر فائز کر دیں۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ جب جب نبی کریم ﷺ کی اطاعت سے روگردانی ہوتی جائے گی۔ کسی نہ کسی جانور کی خو و خصلت ہمارا مقدر بنتی جائے گی۔
نورِ الٰہ کیا ہے محبّت حبیب کی
جس دل میں یہ نہ ہو وہ جگہ خوک و خر کی ہے۔