Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saleem Zaman/
  4. Bandar Aur Khinzir (1)

Bandar Aur Khinzir (1)

بندر اور خنزیر (1)

قرآن مجید میں دو انبیاءؑ کا اپنی قوم کو بدعا کا ذکر ہے۔

ترجمہ: بنی اسرائیل میں سے جو کافر ہوئے ان پر داؤد اور مریم کے بیٹے عیسیٰ کی زبان سے لعنت کی گئی، یہ اس لیے کہ وہ نافرمان تھے اور حد سے گزر گئے تھے۔ (المائدہ 78)

اہل تفسیر کے نزدیک جس قوم کو حضرت داودؑ نے بدعا دی وہ اصحاب سبت یعنی ہفتے کے دن کی نافرمانی کرنے والے تھے اس کا ذکر تو قرآن میں موجود ہے جیسا کہ

ترجمہ: اور آپ ان لوگوں سے اس بستی والوں کا جو کہ دریائے (شور) کے قریب آباد تھے اس وقت کا حال پوچھئے! جب کہ وہ ہفتہ کے بارے میں حد سے نکل رہے تھے جب کہ انکے ہفتہ کے روز تو ان کی مچھلیاں ظاہر ہو ہو کر ان کے سامنے آتی تھیں اور جب ہفتہ کا دن نہ ہوتا تو ان کے سامنے نہ آتی تھیں، ہم ان کی اس طرح پر آزمائش کرتے تھے اس سبب سے کہ وہ بے حکمی کیا کرتے تھے۔ (الاعراف 163)

اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اُس بستی میں رہنے والے بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے ہفتے کا دن عبادت کے لیے خاص کرنے اور اس دن تمام دنیاوی مشاغل ترک کرنے کا حکم دیا نیز ان پر ہفتے کے دن شکار حرام فرما دیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی آزمائش کا ارادہ فرمایا تو ہوا یوں کہ ہفتے کے دن دریا میں خوب مچھلیاں آتیں اور یہ لوگ پانی کی سطح پر انہیں دیکھتے تھے، جب اتوار کا دن آتا تو مچھلیاں نہ آتیں۔ شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ تمہیں مچھلیاں پکڑنے سے منع کیا گیا ہے لہٰذا تم ایسا کرو کہ دریا کے کنارے بڑے بڑے حوض بنا لو اور ہفتے کے دن دریا سے ان حوضوں کی طرف نالیاں نکال لو۔

یوں ہفتے کو مچھلیاں حوض میں آ جائیں گی اور تم اتوار کے دن انہیں پکڑ لینا، چنانچہ ان کے ایک گروہ نے یہ کیا کہ جمعہ کو دریا کے کنارے کنارے بہت سے گڑھے کھودے اور ہفتے کی صبح کو دریا سے ان گڑھوں تک نالیاں بنائیں جن کے ذریعے پانی کے ساتھ آ کر مچھلیاں گڑھوں میں قید ہوگئیں اور اتوار کے دن انہیں نکال لیا اور یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دے دی کہ ہم نے ہفتے کے دن تو مچھلی پانی سے نہیں نکالی۔ ایک عرصے تک یہ لوگ اس فعل میں مبتلا رہے۔ ان کے اس عمل کی وجہ سے اس بستی میں بسنے والے افراد تین گروہوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔

(1)۔ ان میں ایک تہائی ایسے لوگ تھے جو ہفتے کے دن مچھلی کا شکار کرنے سے باز رہے اور شکار کرنے والوں کو منع کرتے تھے۔

(2)۔ ایک تہائی ایسے افراد تھے جو خود خاموش رہتے اور دوسروں کو منع نہ کرتے تھے جبکہ منع کرنے والوں سے کہتے تھے کہ ایسی قوم کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ ہلاک کرنے والا یا انہیں سخت عذاب دینے والا ہے۔

(3)۔ اور ایک گروہ وہ خطا کار لوگ تھے جنہوں نے حکمِ الٰہی کی مخالفت کی اور ہفتے کے دن شکار کیا، اسے کھایا اور بیچا۔

جب مچھلی کا شکار کرنے والے لوگ اس معصیت سے باز نہ آئے تو منع کرنے والے گروہ نے ان سے کہا کہ "ہم تمہارے ساتھ میل برتاؤ نہ رکھیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے گاؤں کو تقسیم کرکے درمیان میں ایک دیوار کھینچ دی۔ منع کرنے والوں کا ایک دروازہ الگ تھا جس سے آتے جاتے تھے اور خطا کاروں کا دروازہ جدا تھا۔ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان خطا کاروں پر لعنت کی تو ایک روز منع کرنے والوں نے دیکھا کہ خطا کاروں میں سے کوئی باہر نہیں نکلا، تو انہوں نے خیال کیا کہ شاید آج شراب کے نشہ میں مدہوش ہوگئے ہوں گے، چنانچہ اُنہیں دیکھنے کے لئے دیوار پر چڑھے تو دیکھا کہ وہ بندروں کی صورتوں میں مسخ ہوگئے تھے۔

اس پر قرآن نے یوں تبصرہ فرمایا ہے کہ

ترجمہ: "اور تم ان لوگوں کو خوب جانتے ہو جو تم میں سے ہفتے کے دن (مچھلی کا شکار کرنے) میں حد سے تجاوز کر گئے تھے تو ہم نے ان سے کہا کہ ذلیل و خوار بندر ہو جاؤ۔ (البقرہ)

اسی طرح حضرت عیسیٰؑ کی قوم نے جب رب تعالیٰ سے ایمان لانے کی شرط پر کھانا مانگا تو پہلے تو حضرت عیسیٰؑ نے انہیں تنبیہ کی مگر وہ ضد پر اڑے رہے۔

ترجمہ: وہ وقت یاد فرمائیں جب کہ حواریوں نے عرض کیا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا آپ کا رب ایسا کر سکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل فرما دے؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو۔ (المائدہ)

اور جب قوم نے اس خواہش کا مقصد اپنے ایمان کو مضبوط کرنا بتایا اور اس دسترخوان کے نزول سے خوب پیٹ بھر کر نعمتیں کھانا بتایا اور اسے خوشی اور عید کا مؤجب قرار دیا، تو حضرت عیسیٰؑ نے دعا فرمائی جس کے جواب میں اللہ کریم نے ارشاد فرمایا کہ

ترجمہ: حق تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ میں وہ کھانا تم لوگوں پر نازل کرنے والا ہوں، پھر جو شخص تم میں سے اس کے بعد ناحق شناسی کرے گا تو میں اس کو ایسی سزا دوں گا کہ وہ سزا دنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہ دونگا۔ (المائدہ)

اب اس واقعہ کی اصل احادیث میں ڈھونڈنا کچھ مشکل کام ہے البتہ روایات اور اسرائیلیات میں کچھ یوں ہے۔ (جس کی کوئی سند مجھے نہیں ملی)

کہ یہ دسترخوان جب عیسیٰؑ کی قوم پر نازل ہوا تو 40 دن سب ہی اس سےکھاتے رہے پھر حکم ہوا کہ صرف غریب کھائیں گے اور دسترخوان سے کچھ اٹھا کر نہیں لے کر جائیں گے۔ جو کچھ بھی دسترخوان پر ہے وہ یہیں کھانا ہوگا۔ جس پر امراء نے بدعہدی شروع کی اور ایک گروہ نے کھانا چرانا اور نافرمانیاں شروع کر دیں۔ جو کچھ غریب کے لئے اللہ نے رکھا تھا اسے زبردستی حاصل کرنا شروع کر دیا۔ جس کے نتیجے میں وہ گروہ خنزیر (سور) بن گیا۔ اور حضرت عیسیٰؑ جس شخص کو آواز دیتے وہ بھاگا بھاگا آتا مگر بول نہ سکتا۔ اور یہ تین دن زندہ رہے۔

لیکن اس واقعہ کی تائید حضرت عائشہ سلام اللہ علیہا کی ایک حدیث پاک سے ہوتی ہے۔

ایک دفعہ مدینہ کے یہودیوں نے "السام علیکم" کہہ کر رسول اللہ ﷺ کی توہین کی تو صدیقہ کائنات سیدہ عائشہؓ نے انہیں جواب دیا۔ بایں الفاظ کتب حدیث میں محفوظ ہے۔

"بندروں اور خنزیروں سے تعلق والو! تم پر ہلاکت ہو، اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہو۔ " (مسند امام احمد 2/241)

اس حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ جنہیں بندر اور خنزیر بنایا گیا تھا وہ موسیٰؑ کی قوم میں سے تھے۔

اسی طرف شاید قرآن کا اشارہ ہے کہ

ترجمہ: فرما دیجئے، کیا میں تمہیں اس شخص سے آگاہ کروں جو سزا کے اعتبار سے اللہ کے نزدیک اس سے (بھی) برا ہے (جسے تم برا سمجھتے ہو، اور یہ وہ شخص ہی) جس پر اللہ نے لعنت کی ہے اور اس پر غضب ناک ہوا ہے اور اس نے ان (برے لوگوں) میں سے (بعض کو) بندر اور (بعض کو) سؤر بنا دیا ہے، اور (یہ ایسا شخص ہے) جس نے شیطان کی (اطاعت و) پرستش کی ہے، یہی لوگ ٹھکانے کے اعتبار سے بدترین اور سیدھی راہ سے بہت ہی بھٹکے ہوئے ہیں۔ (المائدہ)

Check Also

Jadu Toona Aur Hum

By Mubashir Aziz