Ayat Ul Kursi
آیت الکرسی
کیا آپ جانتے ہیں۔۔ آیت الکرسی کی فضیلت۔۔ کس نے سکھائی ہے؟" عثمان بن ہیثم ابوعمرو کہتے ہیں: ہم سے عوف نے بیان کیا، انہیں محمد بن سیرین نے، اور انہیں (حضرت) ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے رمضان کی زکات کی حفاظت پر مقرر فرمایا، (ایک رات کواچانک) ایک شخص میرے پاس آیا اور غلہ میں سے لپ بھربھر کر اٹھانے لگا، میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا: اللہ کی قسم! میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے چلوں گا، اس پر اس نے کہا: میں بہت محتاج ہوں، میرے بال بچے ہیں اور میں سخت ضرورت مند ہوں، حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں: (اس کے اظہارِ معذرت پر) میں نے اسے چھوڑ دیا، صبح ہوئی تو رسولِ کریم ﷺ نے مجھ سے پوچھا: اے ابوہریرہ! گذشتہ رات تمہارے قیدی نے کیا کیا تھا؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا، اس لیے مجھے اس پر رحم آ گیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا، آپ ﷺ نے فرمایا: وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے اور وہ پھر آئے گا، رسولِ کریم ﷺ کے اس فرمانے کی وجہ سے مجھ کو یقین تھا کہ وہ پھر ضرور آئے گا، اس لیے میں اس کی تاک میں لگا رہا، اور جب وہ دوسری رات آ کر وہ پھر غلہ اٹھانے لگا تو میں نے اسے پھر پکڑا اور کہا: تجھے رسولِ کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر کروں گا، لیکن اب بھی اس کی وہی التجا تھی کہ مجھے چھوڑ دے، میں محتاج ہوں، بال بچوں کا بوجھ میرے سر پر ہے، اب میں کبھی نہ آؤں گا، مجھے رحم آ گیا اور میں نے اسے پھر چھوڑ دیا، صبح ہوئی تو رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: اے ابوہریرہ! تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے پھر اسی سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا، جس پر مجھے رحم آ گیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا، آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا: وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے اور وہ پھر آئے گا، تیسری مرتبہ میں پھر اس کی تاک میں تھا کہ اس نے پھر آ کر غلہ اٹھانا شروع کردیا، میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا: تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچانا اب ضروری ہوگیا ہے، یہ تیسرا موقع ہے، ہر مرتبہ تم یقین دلاتے رہے کہ پھر نہیں آؤ گے (لیکن تم باز نہیں آئے اور) پھر آجاتے ہو، اس نے کہا(اس مرتبہ) مجھے چھوڑ دو تو میں تمہیں ایسے چند کلمات سکھا دوں گا جن سے اللہ تعالیٰ تمہیں فائدہ پہنچائے گا، میں نے پوچھا: وہ کلمات کیا ہیں؟ اس نے کہا: جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو آیت الکرسی: "اللهُ لا إِلهَ إلّا هُو الحيُّ القيُّومُ" پوری پڑھ لیا کرو، اللہ تعالیٰ کی طرف سےایک نگران فرشتہ برابر تمہاری حفاظت کرتا رہے گا اور صبح تک شیطان تمہارے پاس کبھی نہیں آ سکے گا، (اس مرتبہ بھی) میں نے اسے چھوڑ دیا، صبح ہوئی تو رسولِ کریم ﷺ نے دریافت فرمایا: گذشتہ رات تمہارے قیدی نے تم سے کیا معاملہ کیا؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے مجھے چند کلمات سکھائے اور یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے گا، اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا، آپ نے دریافت کیا: وہ کلمات کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا: اس نے بتایا تھا کہ جب بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی: "اللهُ لا إِلهَ إلّا هُو الحيُّ القيُّومُ" آیت کے شروع سے آخر تک پڑھ لو، اس نے مجھ سے یہ بھی کہا: (اس کے پڑھنے کی برکت سے) اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر ایک نگراں فرشتہ مقرر رہے گا اور صبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آ سکے گا۔ صحابہ کرامؓ سب سے آگے بڑھ کر خیر کولینے والے تھے۔ (حضرت ابوہریرہؓ کی یہ بات سن کر) نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگرچہ وہ جھوٹا ہے لیکن تم سے یہ بات سچ کہہ گیا ہے، اے ابوہریرہ! تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ تین راتوں سے تمہاری کس سے بات چیت ہورہی تھی؟ حضرت ابوہریرہؓ نے عرض کیا: نہیں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: وہ شیطان تھا۔
(صحيح البخاري"(كتاب الوكالة، بابُ إذا وكّل رجلاً، فَترك الوكيلُ شَيئاً فأجازَه الموكّل فَهو جائزٌ، وإنْ أقرضَه إلى أجلٍ مسمّى جازَ، ج: 3، ص: 101، رقم الحديث: 2311، ط: دار طوق النجاة)
اس حدیث پاک میں چھپی حکمتیں۔۔
گروہ شیطان اور سرغنہ ابلیس صحابہ کرام کو نظر آسکتا تھا اور ان کی گرفت میں بھی آجانا تھا۔۔
قران مجید کی اس آیت مبارکہ کی یہ تشریح ہے جس مین شیطان انسان کے مال اور اولاد مین حصہ دار ہوتا ہے۔۔ جس وجہ سے مال اور اولاد میں سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔ اسی لئے صدقہ اور خیرات کا حکم ہے ورنہ یہ حصہ ابلیس لے کر اشیاء اور اولاد کو بے برکت کردیا ہے۔۔ انبیاءؑ اور خصوصی طور پر نبی اکرم نے صحابہ کرام اور امت کو شیطان کے داو کی خبر دی۔۔
ترجمہ: اور ان میں سے جس جس پر تیرا بس چلے۔ انہیں اپنی آواز سے بہکا لے۔ اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں کی فوج چڑھا لا اور ان کے مال اور اولاد میں اپنا حصہ لگا لے، اور ان سے خوب وعدے کرلے۔ اور (حقیقت یہ ہے کہ) شیطان ان سے جو وعدہ بھی کرتا ہے وہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ (الاسراء)
سب سے اہم بات ہر نیک، محتاج مفلس اور صاحب علم نظر آنے والے شخص قابل اعتبار نہیں۔۔ اگر وہ چوری کرنے آیا ہے یا رشوت لیتا ہے یا دھوکہ دے رہا ہے اور ساتھ ساتھ اپنی مفلسی، محتاجی اور شرافت کی قسمیں کھا رہا ہے تو یہ منافق ہے اس کی قسموں اور الفاظ کے دھوکہ میں نہ آئیں اس کے اعمال یا نیت کو دیکھیں وہ کیا کر رہا ہے، اس کا مطمع نظر کیا دنیاوی فائدہ ہے۔۔ آپ کو اس کی اصلیت جلد واضح ہو جائے گی (اسے الگورتھم کہتے ہیں) جو لوگ جس ارادے سے کوئی کام کر رہے ہوں ان کے اعضاء ان کے ارادے گواہی دیتے ہیں۔۔ ان کی قسمیں جھوٹی ہوتی ہیں۔۔ زبان بہکاتی ہے جبکہ آنکھیں جسم اعضاء سچ بولتے رہتے ہیں مگر ہم باتوں میں آ جاتے ہیں جس کا ہنر ابلیس اور آل ابلیس کو آتا ہے۔۔
سورہ المنافقون امت مسلمہ پر اللہ کا احسان ہے۔۔ وہ آپ پر زبان اور دل کے معاملے کھولتی ہے۔ آج کے اس دور میں ہر شخص کو یہ گیارہ آیات ایک بار ضرور پڑھ لینی چاہئیے تاکہ آج کا معاشرہ سمجھ آ سکے۔۔ ان کل گیارہ آیات میں سے مثال کے لئے 4 آیات کا ترجمہ درج ذیل ہے۔۔
ترجمہ: جب آپ کے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ بے شک آپ اس کے رسول ہیں، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ بے شک منافق جھوٹے ہیں۔ (1)
انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا کر رکھا ہے پھر (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے روکتے ہیں، بے شک کیسا برا کام ہے جو وہ کر رہے ہیں۔ (2)
یہ اس لیے کہ وہ ایمان لائے پھر منکر ہو گئے پس ان کے دلوں پر مہر کر دی گئی ہے پس وہ نہیں سمجھتے۔ (3)
اور جب آپ ان کو دیکھیں تو آپ کو ان کے ڈیل ڈول اچھے لگیں، اور اگر وہ بات کریں تو آپ ان کی بات سن لیں، گویا کہ وہ دیوار سے لگی ہوئی لکڑیاں ہیں، وہ ہر آواز کو اپنے ہی اوپر خیال کرتے ہیں، وہی دشمن ہیں پس ان سے ہوشیار رہیے، اللہ انہیں غارت کرے، کہاں وہ بہکے جا رہے ہیں۔ (4)
اسی لئے لوگوں کی قسموں اور ان کے علم سے متاثر نہ ہوں آیت الکرسی جیسی عظیم حفاظت کی آیت کا مفسر ابلیس ہے اسکا مطلب یہ ہوا کہ یہ اس کا علم ہے، جبکہ وہ نہ تو نبی کریمﷺ کی مجلس میں آتا ہوگا۔۔ اور نہ ہی قرآن سیکھتا ہوگا لیکن عالم بالا سے وہ اس آیت کی اہمیت جانتا ہے۔۔ اس علم کے باوجود وہ چوری اور بہکانے کا کام کرتا ہے۔۔
سورہ قلم میں رب نے واضح طور پر فرمایا کہ
ترجمہ: اور ہر قسمیں کھانے والے ذلیل کا کہا نہ مان۔ جو طعنے دینے والا چغلی کھانے والا ہے۔ (10-11)
لوگوں کے کلام سے قسموں سے متاثر ہونا چھوڑیں۔۔ ان کے اعمال پر نظر ڈالیں۔۔ قران چاہتا ہے کہ اللہ اور رسول کی ماننے والے لوگوں سے جب کوئی کاروبار، رشتہ یا معاملہ کرنا چاہیں تو ان کے قول و فعل اور معاملات پر نظر رکھیں۔۔ ان کی محبت بھری باتیں، مجبوریوں کے قصے اور علمیت کے قصوں سے متاثر نہ ہوں۔۔ مومن اللہ کر فراست سے دیکھتا ہے۔۔ اسی لئے اللہ نے غور فکر کرنے والے مومن کو "رحمان کے بندے" ارشاد فرمایا۔