Andeshe Ghulam Qaumon Ka Almiya Hain
اندیشے غلام قوموں کا المیہ ہیں
اٹھارہویں صدی کی ایک فلاسفر، اداروں کی مینجمنٹ کی ماہر امریکی مصنفہ Mary Parker Follett جو کہ تنظیمی رویوں اور تھیوریز کی بانیوں میں تصور کی جاتی ہیں نے اپنی کتاب Creative Experience جو 1924 میں شائع ہوئی ایک ایسے رویہ یا کھیل کا تصور پیش کیا جس میں کھیلنے والے سب کچھ نہ کچھ جیتیں، ناکہ سب ہی ہار کر جائیں اسے اس نے win win game کا نام دیا۔
اس کی انتہائی سادہ مثال یہ ہے کہ جب ہم کسی بچے کی سالگرہ پر کوئی کھیل کھیلتے ہیں تو ہر بچے کو اس کھیل میں کوئی نہ کوئی انعام دیا جاتا ہے۔ جبکہ روایتی کھیل یہ ہو سکتا ہے کہ صرف پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے بچے ہی کو انعام دیا جائے۔ جس کا نتیجہ ہارنے والے تمام بچوں کا چیخ و پکار اور رونا دھونا ہوتا ہے۔ لہٰذا جب سب کوئی تحفہ لے کر جاتے ہیں تو ہر بچہ جیت جاتا ہے۔ اور سب مطمئن ہوتے ہیں۔
اسے بنیاد بنا کر ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر Roger Fisher اور ان کے ساتھی William Ury نے 1981 میں ایک تھیوری کی بنیاد رکھی جسے win win theory کہا جاتا ہے۔ جس کا لب لباب یہ ہے کہ
a situation by which cooperation, compromise, or group participation leads to all participants benefiting.
یعنی کوئی ادارہ، یا گروہ مشترکہ مفادات کی کوشش کرتے ہیں اور سب کا باہمی فائدہ مدنظر رکھا جاتا ہے۔
اس تھیوری کو صنعتی دنیا میں ایک رہنما اصول کے طور پر ڈاکٹر اسٹیفن کووی نے اپنی معرکتہ الآراء کتاب پراثر لوگوں کی سات عادات میں بطور چوتھی عادت یعنی think win win کے طور پر پیش کیا۔ لیکن ڈاکٹر اسٹیفن کووی نے اس سوچ کی بنیاد، کردار اور رہنما اخلاقی اصولوں پر رکھا۔ جس کے مطابق اسے "جیتیں اور جیتنے دیں" کا نام دیا گیا مصنف کا کہنا ہے کہ ہمیں شروع ہی سے یہ سکھایا گیا ہے کہ کسی دوسرے کی ہار میں ہی تمہاری جیت ہے، کوئی ناکام ہوگا، تو تم کامیاب ہو سکو گے۔ مسابقت کی سوچ کی وجہ سے صورتِ حال یہ پیدا ہوگئی ہے کہ ہر جگہ مقابلہ بازی ہو رہی ہے۔ ہم ہر وقت دوسروں کے ساتھ مقابلے میں رہتے ہیں۔
یہ سوچ اور ایپروچ ہماری بہت ساری انرجی ضائع کر رہی ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ ہمیشہ اپنی اور دوسروں کی جیت اور کامیابی کے بارے میں سوچیں۔ کوشش کریں کہ آپ جیت کی وجہ سے کسی کی ہار نہ ہو۔ مصنف کے مطابق بہترین انسان وہی ہوتا ہے جو اپنی جیت کے ساتھ دوسروں کی بھی جیت چاہتا ہے۔ کیوں کہ یہ زندگی کوئی کھیل نہیں کہ جس میں دوسرے کا ہارنا ضروری ہے، بلکہ زندگی میں بہت سارے لوگ اکٹھے بھی وکٹری حاصل کر سکتے ہیں۔ سٹیفن آر کوے واضح کرتا ہے کہ جو لوگ دوسرے کو روند کر کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ وہ کامیاب ہو جائیں، مگر وہ کامیابی دیرپا نہیں ہو سکتی۔
(کتاب "پُراثر لوگوں کی سات عادات" کا تجزیہ اشفاق اعوان لفظونہ ایڈمن | پیر، دسمبر 5، 2022)
آج لیڈر اور لیڈر شپ کے رہنما اصولوں میں اسے گردانا جاتا ہے۔ جس کے مطابق دنیا میں سب کے لئے حصہ ہے لہٰذا سب کو مل کر اپنے اپنے حصے کے لئے کوشش کرنا چاہئے۔ اسٹیفن کووی کہتا ہے کہ اس کے لئے کردار میں دوسروں کا غم اور بہادری کا جذبہ اگر نہ ہو تو یہ عادت خوف میں بدل جاتی ہے۔ اور انسان واپس اسی کھیل کی طرف چلا جاتا ہے جس میں اگر اس کی جیت نہ ہو تو وہ کسی کو بھی جیتنے نہیں دیتا۔ نتیجہ سب کی ہار ہے۔
حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں: رسول اﷲ ﷺ کے پاس غازیوں کی ایک جماعت حاضر ہوئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں جہادِ اَصغر (جہاد بالسیف) سے جہادِ اَکبر (جہاد بالنفس) کی طرف لوٹ کر آنا مبارک ہو۔ عرض کیا گیا: جہادِ اَکبر کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: انسان کا اپنی نفسانی خواہشات کے خلاف جہاد کرنا جہادِ اَکبر ہے۔
(ابن ماجہ کے علاوہ اسے امام بیہقی نے الزہد الکبیر، میں اور خطیب بغدادی و ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔)
اس حدیث پاک کی تشریح میں مولانا روم (ملفوظات رومی) میں لکھتے ہیں کہ "یعنی نفس کے ساتھ جنگ کرنا جہاد اکبر ہے۔ جنگ میں ہم کئی صورتیں تھی۔ اور ہم صوری (ظاہری) دشمنوں سے لڑے۔ اس گھڑی ہم اندیشوں کے لشکرکے خلاف مصروف پیکار ہیں، تاکہ نیک اندیشے بد اندیشوں کو شکست دیں۔ اور جسم کی مملکت سے انہیں نکال باہر کیا جائے۔ پس جہاد اکبر یہی ہوا۔
اب فکر اور سوچ کا کام ہے۔ "یعنی اندر والے دشمنوں کے لئے بیرونی دشمن کچھ بھی نہیں۔ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ کتنے ہزار (ک افر)، ایک (ک ا ف ر) کے قیدی ہیں جو ان کا بادشاہ ہے۔ اور وہ (ک اف ر) بادشاہ (اپنے اندیشے زوال) کا قیدی ہے۔ لاکھوں سپاہی جن کا شمار نہیں صحرا در صحرا پھیلے ہوئے ہیں۔ اور وہ ایک شخص کے اندیشوں کے اسیر ہیں۔ اور وہ شخص اپنے حقیر سے اندیشے کے آگے بے بس۔ پس یہ سب کے سب ایک ہی اندیشہ یعنی خوف کے اسیر ہوئے۔ (ملفوظات رومی ترجمہ عبدالرشید تبسم)
لہٰذا ہم سمجھ گئے کہ کام اندیشہ کرتا ہے۔ جب ایک کمزور اندیشے سے اتنے ہزار لوگ اور جہاں اسیر ہیں تو جس جگہ اندیشوں کا کوئی شمار نہیں دیکھو وہاں کتنی عظمت اور شان ہوگی۔
اندیشوں کا اگلا قدم خوف ہے، جو انسان کو عہدے چھن جانے، بادشاہی، حکومت چھن جانے، فوج کے مغلوب ہو جانے، شکست، طاقت کے چھن جانے۔ امیری سے غریب ہو جانے کے خوف اور اندیشے کی صورت میں ناانصافی پر مائل کرتا ہے۔ اقتدار کے چھن جانے کا خوف اپنے مخالف کو کچلنے کی کوشش کراتا ہے۔ ایک نا انصاف معاشرے میں دولت، اقتدار اور طاقت حاصل کرنے کے ذرائع ناجائز ہوتے ہیں جو کہ نفس پرستی، اقربا پروری اور ملوکیت یعنی بادشاہ کا بیٹا بادشاہ، کسی سیاسی لیڈر کا جانشین پارٹی کا لیڈر اور کسی دولت مند کا ہر ذریعے سے دولت میں اضافہ ایک اندیشہ زوال کا نتیجہ ہے۔
"آقا ﷺ نے فرمایا اس امت پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ دوسری قومیں اس پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ صحابہ کرام جو معرکوں پر معرکے سر کرتے جاتے تھے اور اسلام اور مسلمانوں کا عروج اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے، حیرت میں پڑ جاتے ہیں۔ ایک آدمی پوچھ لیتا ہے کہ کیا اس وقت ہماری تعداد کم ہو جائے گی؟ رسول پاک ﷺ جواب دیتے ہیں نہیں! اس وقت تمہاری تعداد بہت زیادہ ہوگی مگر تم سیلاب کے جھاگ کے مانند ہو جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہارا خوف نکال دے گا اور تمہارے اپنے دلوں میں وہن، بھر دے گا۔ ایک آدمی پوچھتا ہے کہ یا رسول اللہ یہ وہن، کیا ہے؟ آپؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا "وہن یہ ہے کہ انسان دنیا سے محبت کرنے لگے اور موت کو ناپسند کرنے لگے"۔ (ابو داود)
وہن، عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کمزور ہونا۔ قرآن کریم میں یہ لفظ اسی معنی میں کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔ سورۃ العنکبوت آیت 41 میں ہے۔
ترجمہ۔ "جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا ولی اور کارساز بتاتے ہیں ان کی مثال اس مکڑی کی سی ہے جو گھر بناتی ہے اور بلاشبہ سب سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہوتا ہے۔ کاش کہ یہ لوگ سمجھتے۔ "
(شمشاد حسین فلاحی کے مضمون وہن کی بیماری سے اقتباس)
امام ابن بطال شرح صحیح البخاری، میں لکھتے ہیں: سیدنا علی بن ابی طالبؓ نے فرمایا: سب سے پہلے تمہارے دین (پر عمل کرنے) میں جو چیز مفقود (یعنی ترک) ہو جائے گی وہ تمہارا اپنے نفوس کے خلاف جہاد ہے۔
اب اگر جہاد جسمانی (جہاد اصغر) کی جیت میں مال غنیمت، دنیا اور آخرت کی عزت ہے۔ تو یہ سوچ لیں کہ جہاد اکبر یعنی نفس کے خلاف جہاد میں ہر فتح پر مال غنیمت میں عزت، رزق، کامیابی اور شہرت کے وہ تمام منازل ملیں گی جن کے لئے انسان دوسروں کی گردن پر پاؤں رکھ کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ دراصل سفر اندر سے باہر کی طرف ہے۔ یہ جسموں کی جنگ نہیں بلکہ جسموں میں موجود نفسانی خواہشات کو مارنے کی جنگ ہے جس میں مال غنیمت دنیا اور آخرت کی زندگی کی نعمتیں ہیں۔
اس بات کو جن اقوام نے سمجھ لیا ہے، انہوں نے اپنے اندیشوں پر قابو پایا ہے۔ اور سب کے لئے زندگی میں آگے بڑھنے کے برابر مواقع پیدا کئے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں ان کا نظام حکومت، نظام عدل، نظام معیشت و معاشرت میں ایک متوازن ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں کھوپڑیوں کے مینار بنائے جا رہے ہیں۔
یہی ڈاکٹر اسٹیفن کووی کہتے ہیں لمحے بھر کو یہ تصور کریں کہ آپ اپنی میت پر کھڑے لوگوں کے خیالات سن رہے ہیں۔ آپ کیا سننا چاہیں گے کہ لوگ آپ کے بارے میں کیا خیالات کا اظہار کریں آپ کے مرنے پر شکر کریں یا انہیں ایک اچھے انسان کو کھو دینے کا افسوس۔ اس کے لئے آج سے کوشش کریں۔