1.  Home/
  2. Blog/
  3. Saleem Zaman/
  4. Aik Buzdil Mout Ka Matam Kab Tak

Aik Buzdil Mout Ka Matam Kab Tak

ایک بزدل موت کا ماتم کب تک

جاپان میں سال 2022 میں تقریبا 22 ہزار افراد نے خود کشی کی اور ان میں کام کے بوجھ کی وجہ سے خودکشیوں کی تعداد 37 فیصد ہے یعنی 8114 افراد۔ جس کے پیچھے کے عوامل زیادہ تر خاندانی ازدواجی مسائل، نشہ آور ادویات کا استعمال وغیرہ ہیں۔ جس کا اثر کام کرنے والے افراد پر دوران کام مناسب فیصلے نہ کر سکنے کی وجہ سے کام کا بوجھ ناکامیوں کا خوف کی صورت میں نکلتا ہے۔ غیر ضروری اور ناجائز تعلقات اور سب سے بڑھ کر مورثی ذہنی مسائل ہیں۔

دو دن سے تمام سوشل میڈیا ایک نوجوان (بلال پاشا) کی ہلاکت کا سوگ منا رہا ہے جو سی ایس ایس کرکے اپنے ماں باپ کو شرمندہ کر گیا ہے، کیونکہ وہ اپنی ذہنی استعداد اور اپنے ذہنی خلجان سے نہی لڑ سکا۔ ایک شخص خودکشی صرف کام کی وجہ سے نہیں کرتا۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

ایک پڑھا لکھا اعلی تعلیم یافتہ نوجوان جو دنیا کی چند بہترین سروسز اکیڈ میوں میں سے ایک سے فارغ التحصیل تھا۔ اپنے علاج کروانے یا اس موقعہ کو چھوڑ دینے کی صلاحیت بھی کھو بیٹھا تھا؟ اس سے ثابت ہوا کہ یہ لڑکا ذہنی طور پر بیمار تھا۔ میں حلفیہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایام لڑکپن سے ذہنی یا نفسیاتی بیماری کا شکار تھا جیسے آج کل کے اکثریت مرد و زن بائی پولر ڈس آڈر کا شکار ہیں اور اگر ایسا نہیں تو پھر ان عوامل کا معلوم کیا جائے کہ کیا کوئی آفیسر کا گروہ یا مافیا اسے بلیک میل کر رہا تھا۔ کیونکہ ہزاروں خواتین سول سروسز کا امتحان پاس کرکے بڑی عزت اور شان سے یہی نوکریاں کر رہی ہیں۔ گھر بھی سنبھال رہی ہیں اور بچے بھی۔ لہذا یہ بات ثابت کرتی ہے کہ سروسز اکیڈمی بندے کو یہ بوجھ اٹھانے کے قابل بنا کر فارغ التحصیل کرتی ہے۔

لیکن ایک ذہنی بیمار شخص کی خود کشی نے پہلے سے مردہ نوجوانوں کو ایک نئی بحث اور ڈر دے دیا ہے۔ بالکل اسی طرح سوگ اور شور مچایا جا رہا ہے جس طرح کہیں ایک کوا مر جائے تو کووں کا جھنڈ اس کے سوگ میں شور مچا کر آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ شرم کا مقام ہے ایک بندہ مرا ہے سوگ پورا ملک منا رہا ہے۔ چاہئے تو یہ کہ ان عوامل کو کھل کر سامنے لایا جائے جو اس لڑکے کی بزدل موت کا سبب بنتے رہے اور پاکستان کی تمام آفیسر اکیڈمیوں سے گزارش ہے کہ سائیکالوجی کا ایک مضبوط ٹیسٹ کیا کریں تاکہ تحریری کامیاب امیدواروں کا سول سروسز میں سائیکوپیتھ اور ذہنی ناہموار اور نفسیاتی مسائل کا شکار امیدواروں کو بھی ویسے ہی نااہل ہونا چاہئے جس طرح دیگر جسمانی امراض کا شکار افراد کو کیا جاتا ہے۔

یہ میڈیکل چیک اپ اور اسکروٹنی کا میکنزم آرمی کی طرز پر رکھا جائے تاکہ آنے والے نسلوں کے والدین اپنے اولاد کے کرب سے گزرنے کی بجائے ان کا علاج کروا کر انہیں معاشرے کا فعال رکن بنا سکیں۔ اگر ایسا نہیں تو آج ہزاروں میں ایک ہے کل ہزاروں نوجوان اس کا ایندھن بنیں گے اور اس سب کے ذمہ دار کون ہوں گے اس کا فیصلہ آج کے والدین کو کرنا ہے۔ میرے کسی قسم کی ہمدردی خود کشی کرنے والے کسی فرد سے نہیں کیونکہ خودکشی کا اصل محرک بے توکلی ہے اور بے توکلی کا نتیجہ مایوسی ہے اور ہمارے مذہب کے مطابق مایوس صرف ابلیس ہے، چاہے وہ کسی بھی خاندان کا فرد ہو چاہے کسی عالم دین کا بیٹا ہو یا ایک عام انسان کی اولاد۔

اس ایک ماتم کی بجائے ان ہزاروں لوگوں کے لئے دل جلائیں جو روٹی کا نوالہ نہ ملنے پر عزتوں کے سودے کرنے پر مجبور ہیں۔ یا مزدوری نہ ہونے کی وجہ سے مایوس ہو کر خودکشیاں کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو مایوس نسل کو پروان چڑھا رہے ہیں جو مستقبل میں اپنے ڈر، خوف اور بچپن کے معاشرتی استحصال کو کبھی بھی بھلا نہیں سکیں گے۔

خودکشی کے اسباب کا بنیاد سے تجزیہ کیا جاے اور پاکستان میں موجود نفسیاتی ادارے اس کیس کو ٹیسٹ کیس بنا کر اس کا تجزیہ کریں اور ان عوامل کو اس بچے کی بچپن سے دیکھیں کہ غلطی کہاں سے شروع ہوئی۔ کہیں اکثریت خودکشی کرنے والے نوجوان بچپن میں والدین کی طرف سے گھریلو تشدد اور ازدواجی جھگڑوں میں پسنے اور خاوند اور بیوی کے گھریلو تنازعات میں اولاد پر بھڑاس نکالنے کے نتائج کا شکار تو نہیں۔

اللہ کریم ہر خاندان کو اس کربناک اور باعث عار عوامل سے محفوظ فرمائیں۔ اور اللہ اور اس کے حبیب کریمﷺ پر ایمان کامل نصیب فرمائیں۔۔

Check Also

Kitabon Ki Faryad

By Javed Ayaz Khan