Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Shad
  4. Tharak Aur Muhabbat

Tharak Aur Muhabbat

ٹھرک اور محبت

وہ شادی سے پہلے ایسی نہ تھی۔ تب وہ نرم نازک سی پتلی سی خوبصورت دوشیزہ تھی، کمر لچکاتے پیروں کی انگلیوں پر دوڑتی اٹھکیلیاں کرتی وہ بڑی حسین لگتی تھی اسکا وزن مشکل سے چالیس پنتالیس کلو ہو گا۔

پھر اسکی شادی ہو گئی دولہا بھی چست کسرتی بدن والا خوش شکل نوجوان تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ جوڑی کمال خوبصورت تھی۔ خیر وقت گذر گیا وہ جب جب گاوں آتی اسے بہانے بہانے سے دیکھتے اور آہیں بھربھر کر اپنی پیاس مٹاتے۔

پھر یوں ہوا کہ ہمارے چچا نے شہر میں ایک بڑی فیکٹری میں کینٹین کا ٹھیکہ لے لیا اور ہمارے سمیت گاوں کے آوارہ گرد گروپ کو وہاں جمع کر دیا، گاوں ہم آتے رہے لیکن کئی سال ہی گذر گئے اس سے ملاقات نہ ہو سکی۔ گاوں میں بے بے عائشہ کا انتقال ہوا تو ہم سب وہاں پہنچ گئے، بےبے عائشہ گاوں کی بڑی تھیں سارا گاوں انکا شاگرد بھی تھا سب نے اپنے بچپن میں قرآن بےبے سے ہی پڑھا تھا۔ وہاں ایک خاتون نظر آئی ایک شیرخوار بچے کو سنبھالتی متعدد بچوں کو اپنے اردگرد پچکارتی ڈانٹتی، انہیں رو رو کر سجائی ہوئی آنکھیں دیکھاتی۔ تھی خوبصورت لیکن سمجھ نہیں آرہی تھی کون ہے!

پھر جگ لئے جب خواتین کو پانی پلانے وہاں قریب گیا تو میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا یہ تو رجو تھی۔

وہ کچ کی چوڑی جیسی رجو۔

گلاب کی پتیوں جیسی نرم و نازک رجو اب کہیں گم ہو گئی تھی، یہ تو بے ڈھنگ، بے ترتیب، بے تحاشا پھیلی ہوئی رجو تھی۔

مجھے بھول گیا میں کہاں ہوں؟ میرے اردگرد کون ہیں؟

میں بے اختیار اسکے ساتھ آنکھیں چار ہوتے ہی بولا:رجو یہ تم نے اپنا کیا حال بنا لیا ہے!

رجو میرے سوال سے گھبرا گئی کن اکھیوں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بچے کے کپڑے درست کرنے لگ گئی جیسے اس نے کچھ سنا ہے نہ ہو۔

مجھے بھی احساس ہوا کہ میں نے یہ کیا کہہ دیا، بس جلدی سے گلاس جگ اٹھائے وہاں سے کھسک آیا۔

میرا دل وہیں اٹکا ہوا تھا، رجو! ہماری رجو، یہ کیا ہو گیا رجو کو۔

دوسرے دن میں گھر داخل ہوا تو جیسے جی کو قرار آگیا، رجو ہماری چاچی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔

ہماری چاچی پڑھی لکھی خاتون تھی اسی نے چاچے کو کاروبار کی سوچ دی اور گاوں کے روز روز کے جھگڑوں سے نکالا، ہماری چاچی کے چار بچے ہیں لیکن کنواریوں میں بیٹھ جائے تو کوئی پہچان نہ پائے۔

میں نے قریب جا کر سلام کیا اور چاچی کے قریب بیٹھ گیا، بات شروع کرنے کیلئے پوچھا: چاچی کیا پکایا ہے؟

چاچی نے مسکرا کر میری طرف دیکھا جیسے اس نے میری چوری پکڑ لی ہو۔

بولی: کس وقت کا کھانا؟ ابھی تو بڑا وقت پڑا ہے۔

میں نے بھی کھسیانا ہو کر کہا، ہاں ہاں میں بھی اسی لئے پوچھ رہا ہوں کہ کیا پکانا ہے مشورہ ہی ہو جائے۔

چل پہلے یہ تھوم چھیل میرے ساتھ، چاچی نے حکم دیا۔

لو اندھے کو کیا چاہیئے دو آنکھیں اور وہ بھی وجہ ٹھرک کے رو برو، میں تھوم چھیلنے لگا لیکن رجو اور چاچی کے سامنے بیٹھ کر اب ہم مثلث بنا کر بیٹھے ہوئے تھے۔

اسکے بعد کی گفتگو نے مجھے احساس دلایا کہ ہماری چاچی واقعی سیانی خاتون ہے کچھ ڈاکٹر بھی، کچھ نیوٹریشنسٹ بھی۔

بولی:رجو یہ تو نے اپنا کیا حال بنا لیا ہے، تجھے بار بار کہا اب رک جا وقفہ کر لے لیکن ہر سال تو یہی کہتی اچھا چاچی، اور پھر تیاری کیے بچہ پیدا کرنے میکے آجاتی، کچھ تو شرم کر لے بچوں کا حال دیکھ، دو کو تو سنبھالتی ہے باقی تین پتہ نہیں کہاں رلتے پھرتے ہیں انکی عمر بھی تیری گود میں کھیلنے کی ہے۔ اور اپنا حال دیکھ ابھی سے تو اپنی ساس کی ہم عمر لگنے لگی ہو۔

چاچی پتہ نہیں کب سے بھری بیٹھی تھی ارد گرد سے بے نیاز وہ اس مسلۂ پر نہایت سنجیدہ لہجے میں بہت کچھ بول دینا چاہتی تھی۔

رجو واقعی اداس ہو گئی۔

بولی: چاچی! میری ساس نے کوئی درجن بچے پیدا کیے لیکن دو ہی بچے زندہ رہے ایک میرا خاوند دوسری میری نند، میری نند کی بھی چھ اولادیں پیدا ہوئیں اور ایک بیٹی اسکے پاس ہے، ایسے میں میری ساس نے کہا پتر زندگی موت کا کیا پتہ! بچے پیدا کر ہمارے نسل تو چلے۔ ہر بچے کی پیدائش پر وہ اگلے بچے کی فرمائش کر دیتی تھی، پیار بھی تو بڑا کرتی ہے ناں مجھ سے، کہتی ہے پتر تجھے میں کمزوری نہیں آنے دیتی بس تو میرا گھر بچوں سے بھر دے۔

چاچی نے گردن دائیں بائیں ہلاتے ہوئے کہا: تو اب ساس کی فرمائش میں کبڈی کی ٹیم بنا رہی ہے، مر جائے گی تو اس طرح۔

رجو بولی: لے ایویں! میری ساس نے مجھے گھی، حلوے، کمر کس کشتے سب کھلائے انہی سے تو میں موٹی ہو گئی ہوں۔

چاچی بولی: لے یہ سب بھلا ہم نے نہیں کھائے، تو کیا کرتی ہے جو چربی چڑھتی جارہی ہے تجھ پر؟

رجو بولی: چاچی میں تو چاول ہی کھاتی ہوں سویرے شام ہانڈی سے شورہ ڈال کے، یا پھر بچوں کے چھوڑے ہوئے کھانے کو کھاتی ہوں روٹی پر مکھن لگا کر دوں یا دیسی گھی کا پراٹھا بنا کر دوں، لازمی چھوڑ دیتے ہیں، یہ جو چھوٹے ہیں انکے لئے میری ساس ولائیتی کھیر کے ڈبے لا کر دیتی ہے یہ بھی ضد پر اڑ جاتے ہیں پورا نہیں کھاتے، وہ بھی مجھے کھانا پڑتا ہے۔ اب روز بندہ یہ پھینک تو نہیں سکتا ناں!

چاچی نے اپنا ہاتھ اپنے ماتھے کو مارا اور بولی: شاباش اے تیرے، ڈنگر گاں نہ ہووئے تے۔

چاچی لاکھ سیانی سہی، ٹھیک ہے پر رجو کی یہ بے عزتی مجھ سے برداشت نہ ہوئی میں بھی تھوم چھوڑ کر اٹھ آیا تو ہی مجھے احساس ہوا یقینا رجو کیساتھ میری ٹھرک کسی زمانے میں محبت بن گئی ہو گی۔

Check Also

Roos, Nuclear Doctrine Aur Teesri Aalmi Jang

By Muhammad Aamir Iqbal