Tabdeeli
تبدیلی
انسان اشرف المخلوقات ہے اور اسکے اہم اوصاف میں سے ایک تبدیلی پسند ہونا بھی ہے۔ یہ دراصل ایسی صفت ہے جو کہ انسان کو جستجو، محنت، لگن اور نئے تجربات میں مگن رکھتی ہے۔ انسان کی تمام تر ترقی اسی تبدیلی پسندی کے باعث ہے۔
خالق نے ہمارے لئے ایک ہی سال میں کئی موسم بنائے، ہر موسم کے پھل پھول اور سبزیاں تبدیل کر دئیے یوں ہر موسم کو منفرد بنا دیا۔ پودے بھی ایک عرصہ کے بعد اپنے پتے جھاڑ دیتے ہیں اور نئے پتوں سے تبدیل کرتے ہیں۔ موسم تبدیل ہونے کیساتھ جانور اپنا علاقہ تبدیل کرتے ہیں، اپنے پر تبدیل کرتے ہیں، کئی جسم کی کھال اور کئی جسم کا رنگ تبدیل کرتے ہیں۔ تبدیلی سال کی ہو یا کسی اور چیز کی انسان کے اندر ہمیشہ ہی خوشگوار احساس پیدا کرتی ہے۔
ایک خاص عرصہ کے بعد اس سے حاصل شدہ تجربات کی یاد دہانی اور اگلے عرصہ میں کچھ نیا، کچھ بہتر، کچھ منفرد حاصل کرنے کے لیے عزم نو ہی دراصل سال کے تبدیلی کے وقت ان تقریبات کا باعث ہے۔ انسان کے اندر ایک وصف اکتاہٹ ہے یہ وصف بھی اسے دوسری مخلوقات سے جدا کرتا ہے، کئی مخلوقات اس صلاحیت سے محروم ہیں اور جن میں یہ وصف موجود ہے ان میں عموماََ اس پر قابو پانے کا کوئی نظام موجود نہیں۔
اشرف المخلوقات میں خالق نے اکتا جانے کا یہ وصف بھی بہت منفرد رکھا ہے، کسی بھی کام میں بہتات اور جمود کو طاری نہیں ہونے دیتا۔ نئے سال کی تقریبات کرنے اور ہر نئے ماہ پر تقریبات نہ کرنے کے رجحانات سے اسکو سمجھا جا سکتا ہے۔ یوں تو ہر مہینے انسان مختلف تقریبات مناتا ہے لیکن یہ بھی اکتاہٹ کے بغیر اس لئے ممکن ہے کہ انکی وجوہات جدا جدا ہوتی ہیں۔
تبدیلی کی خواہش اور اکتاہٹ ایسے عوامل ہیں کہ انسان کو نئی منزلوں اور نئے ارادوں سے روشناس کراتے ہیں لیکن کئی ایسے کام ہیں جن میں نہ اکتاہٹ آتی ہے نہ تبدیلی کی خواہش، ایسا عموماً رشتوں کے ساتھ معاملات میں ہوتا ہے۔ اس میں بھی اگر معاشرتی یا مذہبی اصول کارفرما نہ ہوں تو رشتوں میں اکتاہٹ بھی آتی ہے اور تبدیلی کی خواہش بھی۔ میاں بیوی کے رشتے میں اگر تبدیلی کی سنجیدہ خواہش پیدا ہو چکی ہے تو اسکا مطلب ہے روزمرہ امور میں اکتاہٹ اور جمود طاری ہو چکا ہے۔ یہاں اگر روزمرہ معاملات میں تبدیلی کو اپنایا جائے تو جمود کو توڑا جا سکتا ہے۔
اپنی عادت اور معاملات میں وقت کیساتھ تبدیلی لاتے رہیں تو ذوج کی تبدیلی کی خواہش نہیں ہوگی، بلکہ زندگی خوشگوار اور پرسکون ہو جائے گی۔