Sarkari Naukri
سرکاری نوکری
تو آپ سب لوگ ٹسٹ پاس کر کے نوکری کے فائنل انٹرویو کیلئے آئے ہیں، ادھیڑ عمر آفیسر نے کمرے میں بیٹھے نوجوانوں پر ایک نگاہ دوڑاتے ہوئے پوچھا۔
مجھے معلوم ہے۔ آپ سب کو نوکری کی مراعات اور تنخواہ وغیرہ بتا دی گئی تھی۔ آپ کو ابھی جو کاغذات دیئے گئے ہیں، ان میں تنخواہ کیساتھ دیگر الاؤنس اور خصوصی مراعات کی تفصیلات درج ہیں، منتخب شدہ ملازمین کو سرکاری رہائش بھی فراہم کی جائے گی، تمام سرکاری چھٹیاں بھی میسر ہونگی، آپ کو ڈیوٹی ٹائم میں دفتر میں حاضر رہنا ہے۔
کمرے میں خاموشی چھا گئی، پھر ایک طرف سے آواز آئی لیکن سر ہمیں کام کیا کرنا ہوگا یہ تو ابھی تک بتایا ہی نہیں گیا۔ آفیسر نے سوال کرنے والے نوجوان کی طرف دیکھا اور بولا اس نوکری میں کام کا بوجھ نہیں ہے، بلکہ ہر روز کا کام بھی نہیں ہے۔ کبھی ہفتے بعد کبھی مہینے بعد اور کبھی تو کئی کئی مہینے بعد چند منٹ کے لئے کام کرنا ہے۔
اب کئی آوازیں بلند ہوئیں، ایک نے پوچھا سر آخر کیا پہیلیاں بجھا رہے ہیں، بتا دیں کام کیا کرنا ہے۔ ایک صاحب کھڑے ہو گئے اور بولے مجھے لگتا ہے۔ ہمارے ساتھ کوئی مذاق کیا جارہا ہے، اب یہ ڈرامہ بند ہونا چاہیئے ہمیں خواہ مخواہ بے وقوف نہ بنائیں۔ اور ساتھ ہی شور بلند ہو گیا کیونکہ سب اس تجسس کا خاتمہ چاہتے تھے جو اس مسلۂ میں پیدا ہو گیا تھا۔
آفیسر نے اونچی آواز میں اپنے دونوں بازو پھیلا کر سب کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا
خاموش!
خاموش!
میں بتاتا ہوں آپ کو کس نوکری کے لئے بلایا گیا ہے۔ اس فائنل انٹرویو کے بعد ہم آپ میں سے پھانسی گھاٹ کے لئے جلاد چُن لیں گے۔
"جلاد"
جلاد کی نوکری۔
پھانسی دینے کے لئے جلاد۔
ہال سے شور اٹھا ہر کوئی بول رہا تھا۔
آفیسر ایک بار پھر زور سے چلایا
خاموش!
خاموش!
باری باری بتائیں کیا کوئی مسلۂ ہے، اس نوکری میں آپکو؟
جی مسلۂ ہے کیوں نہیں ہے، اگر پہلے بتا دیا جاتا تو میں اس ظالمانہ نوکری کے لئے نہ درخواست دیتا نہ ٹسٹ میں بیٹھتا ایک نوجوان نے فائل کو زمین پر پٹختے ہوئے کہا۔ ایک اور امیدوار کھڑا ہوا اور بولا آپ نے ہمارا وقت ضائع کیا فضول میں یہ بھی کوئی عزت کا کام ہے۔ ایک باریش نوجوان آگے بڑھا اور بولا ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، میں تو ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
ایک نوجوان نے کہا مجھے تو پھانسی گھاٹ کا سوچ کر ہی کپکپی آ رہی ہے، آخر کسی ماں کا لخت جگر چھین کر اور معصوم بچوں کو یتیم کر کے مجھے رات کو نیند کیسے آئے گی، نہ نہ نہ یہ ممکن نہیں۔ آفیسر مسکرایا اور بولا حیرت ہے ایک تو یہ مجرموں کو سزا دینے کا آخری مرحلہ ہے۔ جس کے لئے آپ لوگ سالوں سال کچہریوں عدالتوں کے چکر کاٹتے ہیں کیا کسی ظالم کو انجام تک پہنچانا کسی مظلوم کو انصاف دلانا اچھا کام نہیں۔
اس میں برائی کیا ہے؟
جو بھی ہو لیکن کسی کی جان لینا یہ میری ہمت تو نہیں آخر اسکے لواحقین رو رو کر بددعائیں دیں گے نہ بھائی نہ، میری توبہ ایک نوجوان تو یہ کہتے ہوئے کرسی پر گر ہی گیا۔
آفیسر نے گرج دار آواز میں کہا
سنو!
جب ہم ہر روز کسی کا حق مارتے ہیں، لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں۔ بے رحم ہو کر رشوت لیتے ہیں چاہے کسی کو اپنی ماں کے کانوں سے بالیاں اتار کر بیچنا پڑیں یا بیوی کی چوڑیاں بیچ کر مطالبہ پورا کرنا پڑے۔ ہم اپنے ظلم اور دھوکہ سے لوگوں کو تباہ کر کے بھیک مانگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ہم دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کر کے انکی ہر لمحہ بددعائیں لیتے ہیں۔ کاروبار میں دھوکہ دے کر ایک فرد نہیں پورے خاندان کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔
نہ تو ہمیں کسی کی آنکھ آنسو نظر آتا ہے، نہ کوئی مظلوم دکھتا ہے، نہ کسی کی بدعائیں تنگ کرتی ہیں، نہ ہی رات کی نیند میں کوئی خلل آتا ہے۔ ہمیں ان سب کاموں سے کچھ نہیں ہوتا تو اس جائز نوکری سے ہمیں کیا ہوگا۔ ہم روزانہ جلاد کا کام ہی کرتے ہیں یہ نوکری انوکھی یا نئی کیسے ہے؟