Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sajid Shad/
  4. Quaid e Ba Mushaqat

Quaid e Ba Mushaqat

قید بامشقت

یہ ان دنوں کی بات ہے، جب ہماری کمپنی کی طرف سے ایک عالمی نمائش اور ٹریننگ کیلئے میرا یورپ کا ویزا لگ چکا تھا، اور میں اسکی تیاریوں میں مصروف تھا۔ ہماری بڑی بیٹی اس وقت کوئی سال ڈیڈھ سال کی تھی۔ ہمارے ایک دُور کے عزیز تشریف لائے ابا جی کو کہا میں نے ساجد سے بات کرنا ہے، ابا جی نے انہیں بیٹھک میں بیٹھایا اور گھر والوں کو چائے وغیرہ کا انتظام کرنے کا کہہ کر مجھے ساتھ لے کر بیٹھ گئے۔

وہ صاحب بتانے لگے کہ انہوں نے اپنی آبائی سات ایکڑ زمین بیچ دی ہے، کچھ پیسے بنک میں رکھ دئیے ہیں تاکہ گھر والے یہ رقم استعمال کر کے کچھ عرصہ نظام چلا سکیں باقی رقم ایجنٹ کو دے دی ہے۔ وہ اسے یورپ پہنچا دے گا۔ انکی ایک چچا زاد بہن اپنے خاوند کیساتھ فرانس میں رہتی تھی اور انہوں نے اس کے پاس پہنچ کر سیاسی پناہ کیلئے قانونی کاروائی کرنا تھی۔

وہاں پر قانونی مشیران سے بھی معاملہ طے پا چکا تھا اور ایجنٹ نے وہ رقم بھی وصول کر لی تھی۔ ساری کہانی سنا کر انہوں نے ہمیں خوشخبری سنائی کہ انہوں نے قانونی مشیران سے بات کر لی ہے، ہم اگر تین لاکھ روپے جو اس وقت غالبا کوئی چار ہزار یورو بنتے تھے، انہیں ابھی بجھوا دیں تو میرے یورپ پہنچنے تک وہ ضروری تیاری کر لیں گے اور پھر میں وہاں کیس کر کے رہ سکوں گا۔

ابا جی اور میں حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے کہ انہیں کس نے کہہ دیا کہ ہمیں یہ سب کرنے کی ضرورت ہے، وہ صاحب مزید بولے اور ہمیں سمجھایا کہ دیکھیں یہاں چند ہزار کی نوکری سے کیا بنے گا، یورپ کی کمائی سے آپ بچوں کی شادیاں اور کاروبار کر سکتے ہیں، انکے نئے گھر بنا سکتے ہیں۔ ابا جی نے انہیں بتایا کہ یہ ایک کمپنی کا ملازم ہے۔

انکے اخراجات اور انتظامات پر یورپ جارہا ہے تاکہ اپنی کمپنی کے کاروبار میں بہتری کیلئے خود کو مزید تیار کرے، یہ کمپنی کو دھوکہ کیسے دے سکتا ہے؟ ہم نے جھوٹ اور دھوکہ کی تربیت نہیں دی بچوں کو، پھر اگر ایسا ہی کر دیا تو آئیندہ کمپنی کسی کو ٹریننگ کیلئے باہر نہیں بھیجے گی اسکی وجہ سے کتنے لوگوں کا نقصان ہو گا، وہ صاحب اپنے دلائل سے سمجھاتے رہے کہ چاچا جی زندگی میں ترقی کیلئے یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔

میں تو لاکھوں روپے لگا کر یورپ جا رہا ہوں اور اسے بالکل مفت وہاں جانے کا موقع مل رہا ہے۔ ایسے مواقع تو قسمت والوں کو ملتے ہیں۔ آپ اس پر سوچیں اور مجھے بتا دیں چند کاغذات کی فوٹو کاپیاں چاہیئں اور وہاں کیس کرنے کا بندوبست ہو جائے گا۔ بحرحال ہم نے انکی محبت اور خلوص کا شکریہ ادا کیا اور انہیں رخصت کر دیا۔ ویسے میں ہمیشہ سے قائل رہا ہوں کہ نوجوانوں کو پڑھنے کیلئے دنیا کی بہترین درسگاہوں میں جانا چاہیئے۔

اسکے لئے اگر وسائل ہوں تو بہت اچھا ہے وگرنہ دستیاب اسکالرشپ ڈھونڈ کر انکے زریعے پڑھنے کیلئے جائیں۔ اگر بیرون ملک سکونت اختیار کرنا ہو تو قانونی طور پر وہاں رہیں۔ اسکے علاوہ ورک ویزا پر جائیں یا قانونی امیگریشن حاصل کریں، تاکہ آپ اپنی فیملی کو بھی اپنے ساتھ رکھ سکیں یا جب چاہیں وطن واپس آ سکیں۔ خیر وقت گذر گیا اسکے بعد بھی کئی بار کاروباری ضرورتوں کے پیش نظر یورپ اور دیگر ممالک میں جانے کا موقع ملا۔

گذشتہ وزٹ میں کووڈ سے پہلے ان سے رابطہ ہوا تو اٹلی میں ایک جگہ ملاقات ہو گئی۔ ادھر اُدھر کی گپ شپ کے بعد مجھے انہوں نے حالات پوچھے تو رب کریم کا شکر ادا کیا اور انہیں یاد دلایا کہ ابا جی نے نوکری سے ریٹائرمنٹ میری شادی سے بھی پہلے لے تھی۔ پھر ابا جی اسکے بعد گھر کے منتظم تھے اور ہم انکے رضاکار۔ بہن بھائیوں کی شادیاں بھی بروقت ہو گئیں، بھائیوں کے مناسب روزگار کاروبار بھی ہو گئے، اللہ نے مجھے اپنا ذاتی گھر بھی عطا کر دیا۔

سب سے بڑھ کر والدین کی خدمت کا بھرپور موقع بھی میسر رہا، والدہ کے اچانک انتقال کے بعد والد محترم چار پانچ سال علیل رہے اور ہم انکی خدمت میں لگے رہے۔ بچے پڑھ رہے ہیں اور ہم انکی نشونما کے تمام مراحل کو دیکھتے ہوئے انکی تربیت کی کوشش کر رہے ہیں، پھر اپنے ملک میں اپنے لوگوں کے درمیان ہیں، تو اپنی استطاعت اور صلاحیت کے مطابق آسانیاں بانٹنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔

وہ یہ سب سن کر بولے بھائی ساجد آپ ٹھیک تھے میں غلط تھا، سب کچھ بیچ کر یہاں آیا کاغذات بننے میں آٹھ دس سال لگ گئے اب تو پندرہ سال گذر چکے، اماں ابا اس دوران فوت ہو گئے، میں واپس نہیں جا سکا، دو چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر آیا تھا وہ جوان ہو گئے، بیوی انتظار میں بوڑھی ہو گئی ان پندرہ سالوں میں صرف اتنا ہوا کہ پاکستان میں گھر اچھا چلتا رہا مالی تنگی نہیں ہوئی۔

لیکن ایک بہن اور ایک بھائی کی شادی کرنا تھی مجھ سے یہ نہ ہو سکا، بھائی آوارہ لوگوں میں بیٹھتا اٹھتا تھا وہ نشئی ہو گیا بہن کی شادی کی عمر نکل گئی، تو ایک رشتہ دار کی بیوی پانچ بچے چھوڑ کر مر گئی، تو اس سے نکاح کروانا پڑا۔ اب واپس جانا چاہتا ہوں لیکن اب بچے پڑھ رہے ہیں انکی شادیاں کرنا ہیں، سچ پوچھو تو انہیں میری ضرورت ہی نہیں، انہیں پیسے چاہیئں جو میں ہر مہینے بھیجتا رہوں۔

مجھے لگتا ہے میں اپنی زمین بیچنے کے جرم میں یہاں عمر قید با مشقت کاٹ رہا ہوں۔

Check Also

Karakti Bijliyan

By Zafar Iqbal Wattoo