Petrol Pump Ka Munshi
پٹرول پمپ کا منشی
یہ مراتب علی کی کہانی ہے، چوتھی جماعت کا طالب علم اب گھر کا کمانے والا فرد ہے۔ اس کا بڑا بھائی بھی کماتا ہے۔ اس کا دوسرا بھائی بھی کماتا ہے، جی تینوں بھائی اسکول میں پڑھتے ہیں اور کماتے ہیں۔ مراتب علی کا والد بنک میں چوکیدار تھا، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، ہر چوکیدار خوشحال اور متول نہیں ہوتا۔ بنک کے چوکیدار عموماً پرائیویٹ اسکورٹی کمپنیوں کے ملازم ہوتے ہیں۔
نہایت قلیل تنخواہ بلکہ دیہاڑی دار ملازمت، کوئی چھٹی نہیں، کوئی سواری نہیں، خرابی صحت میں کوئی دوا دارو نہیں، کوئی پینشن نہیں۔ مراتب علی کا والد بھی ایسا ہی چوکیدار تھا، پھر وہ بیمار رہنے لگا۔ سرکاری ہسپتال میں دیکھایا تو پتہ چلا اسے جگر کی خرابی کا مرض ہے، یہ آسان ترین وضاحت تھی۔ جو ماسٹر اسلم کو مراتب علی نے دی، یہ بھی بتایا کہ بڑا بھائی آٹھویں جماعت میں پڑھتا ہے۔
ابا بیمار ہوا تو اس نے اسکول سے آ کر ادھر ادھر کام کرنا شروع کر دیا موٹر سائکل مرمت والی دوکان پر پھر ٹائروں کو پنکچر لگانے کی دوکان پر، لیکن یہاں سے جتنے پیسے ملتے تھے وہ کرائے میں ہی لگ جاتے تھے۔ کیونکہ ہم گاوں میں رہتے ہیں اور یہاں جی ٹی روڈ پر شہر آنے کیلئے پہلے موٹر سائکل رکشہ اور پھر بس پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ پھر بھائی کو کسی نے اس پٹرول پمپ پر لگوا دیا، یہاں سے اسے زیادہ پیسے ملتے ہیں۔
ابا اب گھر سے باہر نہیں جا سکتا چارپائی پر ہی پڑا رہتا ہے، اماں گھر پر چنے اور مخانے لا کر پیکٹ بناتی ہے، جو بسیں گاوں والے موڑ پر آ کر رکتی ہیں۔ وہاں میرا دوسرا بھائی بسوں میں یہ پیکٹ بیچتا ہے۔ میں بھی بھائی کیساتھ وہاں چنے کے پیکٹ بیچنے گیا تھا، وہاں اونچی بسوں پر چڑھنا اترنا مشکل تھا تو بھائی نے منع کر دیا کہ کہیں گر کر گاڑی کے نیچے نہ آ جانا۔ پھر بڑے بھائی نے پٹرول پمپ پر منشی سے بات کی تو اس نے مجھے یہاں پیکٹ بیچنے کی اجازت دے دی۔
اسلم نے پوچھا، تم روزانہ کتنے کے چنے بیچ لیتے ہو؟
وہ بولا، اماں روز مجھے پانچ سو کا سودا پیکٹ بنا کر دیتی ہے، سارا نہیں بکتا کبھی تھوڑے سے بکتے ہیں کبھی چھ سو سات سو کے بک جاتے ہیں۔ کل بڑے گاہک آئے تھے سب پیکٹ نو سو ساٹھ روپے کے بک گئے اماں بڑی خوش ہوئی تھی چار سو روپے بچ گئے تھے۔ اسلم نے پوچھا دوسرا بھائی کتنے کے چنے بیچ لیتا ہے؟ مراتب بولا وہ بھی پانچ سو کا سودا لے کر جاتا ہے۔
وہاں بسوں پر دوسرے لوگ جوس پانی اور چھلیاں بیچتے ہیں، وہ بھائی کو بسوں پر پہلے نہیں چڑھنے دیتے اس لئے اسکے چنے کم بکتے ہیں چار سو یا چھ سو کے بیچتا ہے، اب چھٹیاں ہیں تو وہ صبح ہی اڈے پر آ جاتا ہے اور شام تک وہیں رہتا ہے۔ اماں کہہ رہی تھی کہ اب اسکول کھل جائیں گے تو پھر وہ اسکول سے آ کر ہی چنے بیچنے جائے گا تب آدھے ہی بکیں گے۔
ماسٹر اسلم نے پوچھا تم یہاں کس وقت آتے ہو؟ مراتب بولا، بھائی کیساتھ ہی آتا ہوں، جب اسے چھٹی مل جاتی ہے تو ہم دونوں بھائی واپس چلے جاتے ہیں۔ اسکول کھل جائیں گے تو بھائی کی ڈیوٹی بھی دوپہر کے بعد سے رات تک لگ جائے گی۔ اماں کہتی ہے پھر بھی ہم دونوں بھائی اسکول سے آ کر اکٹھے کام پر آیا کریں گے۔ مراتب کی معصومیت اسلم کو اس کیساتھ اور باتیں کرنے پر مجبور کر رہی تھی۔
اسلم نے پوچھا، مراتب یہ بتاؤ ابا کی دوائی کتنے کی آتی ہے؟ وہ بولا، اماں کہہ رہی تھی پہلے تو دوائی ہسپتال سے ملُ جاتی تھی اب وہاں سے ملنا بند ہو گئی ہے، پتہ نہیں اب دوائی کی پیسے ہونگے کہ نہیں۔ ابا کہہ رہا تھا جب دوائی نہیں ملے گی تو اچھا ہے میں جلد مر جاؤں گا تم لوگوں کی مصیبت ختم ہو جائے گی۔ اسلم کی آنکھیں بھر آئیں اس نے پوچھا، مراتب تمہارے چچا تایا کیا کرتے ہیں؟
مراتب بولا، چاچا مزدوری کرتا ہے، جمعے کو چاچا کی چھٹی ہوتی ہے وہ اس دن ابا کے پاس آتا ہے، ہسپتال جانا ہو تو وہی ابا کو ہسپتال لے کر جاتا ہے۔ ماسٹر اسلم اپنے اسکول میں بھی بچوں سے جو سوال ضرور پوچھتا تھا وہی اس نے مراتب سے بھی پوچھا، مراتب تم بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ مراتب بولا، میں چوکیدار نہیں بنوں گا، پٹرول پمپ کا منشی بنوں گا۔