Nafa Ka Soda
نفع کا سودا
اولے برسنے کے بعد اب بارش برس رہی تھی، اس سخت بارش میں پھسلن والے رستے پر چلتے ہوئے اسلم کی نظر کھیت کے دوسرے کنارے پر پڑی ایک گٹھری سی پڑی ہوئی تھی، اسلم نے آواز دی کون ہے؟ لیکن کوئی حرکت نہیں ہوئی کچھ اور قریب جا کر آواز دی تو گٹھری میں زرا سی حرکت ہوئی لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ اسلم کیچڑ میں جتنا تیز چل سکتا تھا چلا، وہاں دیکھا تو یہ چاچا اللہ بخش تھا جو خاموش سر جھکائے دوھرا ہوا پڑا تھا۔
چاچا یہاں کیوں بیٹھے ہو اتنی شدید بارش اور اولے پڑ رہے ہیں، آؤ چاچا ڈیرے پر چلو، اٹھو۔
اسلم نے چاچا اللہ بخش کو بازو سے پکڑ کر اٹھایا۔
چاچا اللہ بخش اپنے بے جان جیسے جسم کو گھسیٹتے ہوئے اس کے ساتھ کھیت کے دوسرے کنارے اسلم کے ڈیرے پر آ گیا۔
اسلم نے جیبیں ٹٹولیں تو اسے بائیں جیب میں کمرے کی چابی مل گئی۔
ابھی دونوں دروازہ کھول کر ڈیرے کے اس اسٹور نما کمرے میں داخل ہوئے ہی تھے کہ خوفناک آواز کیساتھ بجلی کڑکی اور ایک بار پھر اُولے برسنے لگے۔
اسلم نے دیوار کیساتھ کھڑی چارپائی کو لٹایا اور چاچا اللہ بخش کو اس پر بیٹھا دیا۔
اسلم دروازے کے قریب آیا کھیتوں کی طرف دیکھا تو اس کوجو منظر نظر آیا، بے ساختہ اس کے منہ سےاستغفراللّٰہ نکلا اور وہ بے اختیار دعا کرنے لگا۔
یااللہ رحم فرما یارب العالمین تو ہی رازق ہے لیکن اس فصل سے ہماری زندگی کی خوشیاں جڑی ہوئی ہیں۔
یااللہ رحمت کی بارش برسا، یااللہ ہمارے گناہوں کو معاف فرما ہمیں اس طرح تباہی سے سزا نہ دے۔
اسلم نے نمناک آنکھوں کو پونچھتے ہوئے پیچھے دیکھا تو چاچا اللہ بخش زار و قطار رو رہا تھا۔
اسلم بھی چارپائی پر بیٹھ گیا
بجلی وقفے وقفے سے کڑک رہی تھی اور بارش برستی جا رہی تھی۔
اسلم بولا چاچا!
ہم بندے ہیں وہ مالک ہے ہم دعا کر سکتے ہیں التجا کر سکتے ہیں اسکی حکمتیں وہی جانتا ہے، میری دس ایکٹر پر کھڑی گندم تباہ ہو گئی ہے بارش رکے گی تو صبح پتہ چلے گا کہ اپنے گھر کی ضرورت کیلئے بھی کچھ بچا ہے کہ نہیں۔
چاچا اللہ بخش بولا پتر ماشااللہ تیرے پاس جانور ہیں بکریاں اور بھیڑیں بھی ہیں، گائے بھینس کا دودھ تیرا گذارا چلا دے گا بھیڑ اور بکری کے بچے عید تک جوان ہو جائیں گے رب نے چاہا تو اس میں بھی تجھے اچھا نفع ہو جائے گا، پتر میرا تو سب کچھ یہی آٹھ ایکٹر ہیں چار اپنے اور چار ایکٹر ٹھیکہ پر لئے ہوئے، اب فصل ہوئی نہیں لیکن ٹھیکہ تو سر پر چڑھ گیا لیکن پُتر یہ نقصان ہوتے رہتے ہیں رونا اس بات کا نہیں ہے، اور ساتھ ہی چاچا کی ہچکی بندھ گئی۔
اسلم نے چاچا کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دلاسہ دیا، چاچا ہم سب گاوں والوں کا جینا مرنا اکٹھا ہے تیرے گھر میں فاقہ نہیں ہونے دیں گے۔
چاچا اللہ بخش نے لمبا سانس لیتے ہوئے اپنی ہچکی کو روکا اور بولا، پُتر میں محنت مزدوری کرنے والا بندہ ہوں روٹی ٹکر کیلئے تو میں موڑ پر جا کر مزدوری کروں گا تو چل جائے گا، لیکن میری دھی اس سال بھی بیٹھی رہ جائے گی، اسکی عمر نکلتی جارہی ہے میں گھر جاتا ہوں تو اس کی طرف دیکھا بھی نہیں جاتا، جوان دھی کو گھر میں بیٹھا رکھا ہے مجھے شرم سے راتوں کو نیند بھی نہیں آتی یہ کہتے ہوئے چاچا پھر زاروقطار رونے لگا-
اسلم نے اپنے دائیں طرف بیٹھے چاچا اللہ بخش کو گلے لگایا تو اسکو بھی اپنے آنسووں پر قابو نہیں رہا کمرے کے باہر برسنے والی تیز بارش کی آواز انکے رونے کی آواز میں کھو گئی۔
اسلم چارپائی کی ادوائین سے اٹھا اور کمرے میں لٹکے ہوئے اپنے ایک کرتے سے آنسو صاف کئے پھر چاچا اللہ بخش کے آنسو صاف کر کے اس کے قدموں میں بیٹھ گیا اور بولا چاچا میرا چھوٹا بھائی قادر بھی تیرے ہاتھوں میں جوان ہوا ہے تو اسے جانتا ہے، میں قادر کیلیے تیری دھی کا رشتہ مانگتا ہوں چاچا میری جھولی میں خیر ڈال دے۔
چاچا اللہ بخش اٹھا اور اسلم کو بھی کھڑا کرلیا۔
اسےگلے لگا کر چاچا وہ رویا کہ باہر برستی بارش کو رک جانا پڑا۔
دونوں آنسو پونچھتے ڈیرے سے نکلے اور گاوں کی طرف چل پڑےجہاں دونوں گھروں میں اس رشتہ کا اعلان کرنا تھا۔
چاچا اللہ بخش کا ہر ہر سانس دعا بنا ہوا تھا وہ سوچ رہا تھا مالک تیری حکمتیں تو ہی جانے فصلیں تباہ کرکے امتحان میں ڈالتا ہے اور انسانوں کو ہی رحمت کے فرشتے بنا کر بھیج دیتا ہے۔
اسلم یہ تو جانتا تھا کہ اس نے اپنے گھرانے میں ایک محنتی اور سگھڑ فرد کا اضافہ کر لیا ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ دس ایکڑ گندم کی تباہی والے دن اس نے اپنے خالق سے زندگی کا سب سے بڑا، کامیاب اور نفع کا سودا کیا تھا۔