Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Shad
  4. Muhammad Shah Rangila Saltanat e Mughlia Ka Mashoor Shahenshah (1)

Muhammad Shah Rangila Saltanat e Mughlia Ka Mashoor Shahenshah (1)

محمد شاہ رنگیلا سلطنتِ مغلیہ کا مشہور شہنشاہ (1)

اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد بارہ سال میں نو حکمرانوں نے مغلیہ سلطنت کی باگ دوڑ سنبھالی لیکن یہ سب معزول کر دئیے گئے اور اکثر کو قتل کیا گیا، اس دور میں ایک طرف ریاستی امراء بہت با اثر تھے تو دوسری جانب خاندان مغلیہ میں تعلیم و تربیت میں خرابیوں اور خصوصاََ شہزادوں کا محل تک محدود رہنا ان کی سیاسی اور ریاستی امور میں نا اہلی کی وجہ تھا، اس کے علاوہ ہر بادشاہ اور اس کی حمائتی امراء نے دوسرے شہزادوں کو نظر بند کیا یا جیل میں ڈالا۔

ایسے حالات میں شاہ عالم بہادر شاہ اول کا پوتا روشن اختر، سید برادران نے جیل سے رہا کرایا اور 17 ستمبر 1719ء کو روشن اختر ناصر الدین محمد شاہ رنگیلا کے نام سے تخت پر بٹھا دیا۔ وہ لمبا عرصہ تقریباً انتیس سال حکمران رہا۔ اس کا دور داخلی بغاوتوں، لڑائیوں، خلفشار سے بھرپور دور تھا لیکن اس کی اپنی شخصیت بھی تاریخ سلطنت مغلیہ کی متنازعہ اور بدنام شخصیت رہی۔

وہ صرف انیس سال کی عمر میں منتخب ہوا، اس کی نا تجربہ کاری سلطنت کے زوال کا سبب بنی تو درباری مسائل اور تخت نشینی کے جھگڑے بھی اس کی اہم وجہ تھے، اس کے دور میں مغل مرہٹہ جنگوں نے ہی مغل سلطنت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا لیکن محمد شاہ میں کمزوریاں بالکل تھیں، اعلیٰ قابلیت ہوتی تو ان مسائل پر بر وقت قابو پا لیتا۔

نادر شاہ کے حملے نے مغلیہ سلطنت کو بالکل دیوالیہ کر دیا تھا، اس کے بعد جب انگریز آگے بڑھے تو انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اب ان کے لیے میدان کھلا ہے۔ نادر شاہ نے مغلیہ سلطنت کو مردہ کر دیا سارا خزانہ لوٹ لیا اور حکومت کو بے سر و سامان کر دیا۔ کمزور حکومت پھر سنبھل نہ سکی۔ محمد شاہ کے دور میں فوجی قوت کی کمی نہ تھی صرف طاقتور قابل قائد کی کمی تھی۔ اس کے دور میں مغل فوج دو لاکھ گھڑ سواروں اور پندرہ سو جنگی ہاتھیوں پہ مشتمل تھی جس کے پاس توپیں بھی موجود تھیں۔

مغل سلطنت کے علاقے 1725ء سے ہی خود مختار ہونا شروع ہو گئے تھے اور 1737ء میں مرہٹہ دہلی پہ حملہ کر چکے تھے یعنی نادر شاہ ایرانی کے دہلی پہ حملے سے دو سال پہلے۔ اس کا مطلب ہے کہ بنیادی وجہ محمد شاہ کی نا تجربہ کاری، آپس کی جنگیں، سکھوں اور مرہٹوں کی بغاوت تھی جن کو نادر شاہ ایرانی کے حملوں نے مزید تقویت دی، ورنہ یہ بغاوتیں تو اورنگزیب کے زمانے میں بھی یہی طبقے بار بار کر چکے تھے اور اس نے ان کو دبا کر رکھا تھا۔

نو عمری میں تخت نشینی اور ناپختگی کی وجہ سے محمد شاہ استحکام نہ لا سکا اور اوپر سے ہونے والی بغاوتوں، نادر شاہ کے حملے نے باقی کسر پوری کر دی۔ اس کا نام رنگیلا ایک فارسی نام ہے جس کا مطلب خوش رہنے والا ہے جبکہ اس نام کو رنگین مزاجی کا استعارہ بنا کر پیش کیا گیا، محمد شاہ رنگیلا کے بارے میں جو تاریخ لکھی گئی وہ مبالغہ آرائی کی حد تک منفی ہے اکثر انگریز مؤرخین نے اسے جس انداز میں پیش کیا یہ مقبول عام ہو گیا کیونکہ سلطنت مغلیہ کے دیگر مخالفین مرہٹے سکھ امراء اور ایرانی بھی یہی چاہتے تھے۔

یقیناََ اس میں خرابیاں، نالائقیاں اور عیاشی ہو گی لیکن مؤرخین و محققین کا ایک طبقہ اسے مبالغہ انگیزی سمجھتا ہے، کہا جاتا ہے کہ محمد شاہ کے شب و روز کا معمول یہ تھا، صبح کے وقت جھروکۂ درشن میں جا کر بٹیروں یا ہاتھیوں کے لڑائیوں سے دل بہلانا۔ اس دوران کبھی کوئی فریادی آ گیا تو اس کی بپتا بھی سن لینا۔ سہ پہر کے وقت بازی گروں، نٹوں، نقالوں اور بھانڈوں کے فن سے حظ اٹھانا، شامیں رقص و موسیقی سے اور راتیں عیش میں مصروف۔

اس کے بارے میں مشہور ہے کہ "وہ رقص و سرور اور فحاشی و عریانی کا دل دادہ تھا، وہ قانون بنانے اور قانون توڑنے کے خبط میں بھی مبتلا تھا، وہ ایک ایسا پارہ صفت انسان تھا جو اچانک کسی شخص کو ہندوستان کا اعلیٰ ترین عہدہ سونپ دیتا تھا اور جب چاہتا وزیراعظم کو کھڑے کھڑے جیل بھجوا دیتا تھا۔ وہ اکثر دربار میں ننگا آ جاتا تھا اور درباری بھی اس کی فرماں برداری اور اطاعت گزاری میں کپڑے اتار دیتے تھے۔

وہ بعض اوقات جوشِ اقتدار میں دربار میں سرے عام پیشاب کر دیتا تھا اور تمام معزز وزراء، دلی کے شرفاء اور اس وقت کے علماء اور فضلاء واہ واہ کہہ کر بادشاہ سلامت کی تعریف کرتے تھے، وہ بیٹھے بیٹھے حکم دیتا تھا کہ کل تمام درباری زنانہ کپڑے پہن کر آئیں اور فلاں فلاں وزیر پاؤں میں گھنگرو باندھیں گے اور وزراء اور درباریوں کے پاس انکار کی گنجائش نہیں ہوتی تھی۔

وہ دربار میں آتا تھا اور اعلان کر دیتا تھا جیل میں بند تمام مجرموں کو آزاد کر دیا جائے اور اتنی ہی تعداد کے برابر مزید لوگ جیل میں ڈال دیے جائیں، بادشاہ کے حکم پر سپاہی شہروں میں نکلتے تھے اور انہیں راستے میں جو بھی شخص ملتا تھا وہ اسے پکڑ کر جیل میں پھینک دیتے تھے، وہ وزارتیں تقسیم کرنے اور خلعتیں پیش کرنے کا بھی شوقین تھا، وہ روز پانچ نئے لوگوں کو وزیر بناتا تھا اور سو پچاس لوگوں کو شاہی خلعت پیش کرتا تھا اور اگلے ہی دن یہ وزارتیں اور یہ خلعتیں واپس لے لی جاتی تھیں۔

وہ طوائفوں کے ساتھ دربار میں آتا تھا اور ان کی ٹانگوں، بازوؤں اور پیٹ پر لیٹ کر کاروبار سلطنت چلاتا تھا، وہ قاضی شہر کو شراب سے وضو کرنے پر مجبور کرتا تھا اور اس کا حکم تھا ہندوستان کی ہر خوبصورت عورت بادشاہ کی امانت ہے اور جس نے اس امانت میں خیانت کی اس کی گردن مار دی جائے گی اور اس نے اپنے دور میں اپنے عزیز ترین گھوڑے کو وزیر مملکت کا سٹیٹ دے دیا اور یہ گھوڑا شاہی خلعت پہن کر وزراء کے ساتھ بیٹھتا تھا"۔

یہ سب مبالغہ انگیزی ہے یا نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حرم کا عورتوں اور خواجہ سراؤں سے بھرا ہونا نشانی ہے کہ عیاشی ہی ترجیح تھی۔ وہ نا اہل تھا لیکن لگتا ہے کہ اتنا غافل نہیں تھا کہ چوبیس گھنٹے نشے میں دھت رہتا۔ اس کی طرف سے اپنی سلطنت بچانے کے کئی اقدامات بھی ملتے ہیں۔ اپنے خلاف خطرہ بننے والے وزیر اعظم سید حسین علی برحا کو اس نے قتل کرا دیا تھا۔

Check Also

Riwayat Aur Ijtehad

By Muhammad Irfan Nadeem