Mirza Kahani
مرزاکہانی
ملک جی! اب تو فلم کو سینما پر لگے بھی ہفتہ ہو گیا مجھے میرے پیسے دے دیں۔ مرزا کہانی التجائی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔
مرزا کہانی اسکا نام فلم انڈسٹری نے رکھ دیا تھا اور اب یہی اسکا نام تھا، ڈائیریکٹر اس کو بلواتے اپنا آئیڈیا سناتے اور مرزا کہانی لکھنے بیٹھ جاتا اسے بس وہاں چائے پر چائے کا کپ ملتا رہے سگریٹ ختم نہ ہونے پائیں، مرزا کہانی لکھ کر ہی اُٹھے گا۔ بڑے بڑے رائٹر اسے پچکارتے ہوئے کہتے یار ایک سین اٹک گیا ہے کچھ سمجھ نہیں آ رہی اس جذباتی منظر میں ڈائیلاگ کیا ہوں!
مرزا منہ میں سگریٹ دباتا چائے کی چسکی لے کر لکھنا شروع کرتا تو جذبات کے دریا امڈ آتے۔
بس ایک خرابی تھی مرزا کہانی میں وہ کہانی باز نہ تھا، وہ سادہ اور معصوم غریب آدمی تھا اسی کا سب فائدہ اٹھاتے تھے اور وہ فاقوں سے اپنے بال بچوں کو نکال نہیں پایا تھا۔
ملک توقیر نے فلم بنانا شروع کی تو اسکا رائٹر معاوضہ کے تنازعے پر ہی فلم ابتدا میں چھوڑ کر بھاگ گیا، پلاٹ تو تھا لیکن تفصیلی کہانی اور ڈائیلاگ نہیں لکھے گئے تھے، ملک توقیر کے پاس پیسہ تھا ساتھ طاقت بھی تھی جو اسمگلروں کے پاس ہوتی ہے، مرزا کہانی کو اسکے بندے تقریباً اغوا ہی کر کے لے آۓ، پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا تھا، مرزا تین دن ملک توقیر کے ڈیرے پر قید رہا اسکی عیاشی سگریٹ چائے اس ملتے رہے اور کہانی تیار ہوگئی۔
ملک جی نے خوش ہو کر مرزا کہانی کو ایک ہزار روپیہ دیا اور کہا کہ فلم کی شوٹنگ شروع ہوتی ہے تو تمہیں پورے پچاس ہزار روپے دونگا۔
ملک توقیر شائد اس وقت کہانی لکھی جانے پر کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو گیا تھا بعد میں اسے احساس ہوا کہ یہ معاوضہ مرزا کہانی کی اوقات سے کہیں زیادہ ہے، پھر وہی ٹال مٹول اور ویلیں دینے کا سلسلہ شروع ہوا کبھی پانچ سو تو کبھی دو سو کبھی جب اس نے دوھائیاں دیں تو ہزار بھی مل گیا کل ملا کر اسے چھ ہزار سات سو روپے ملے۔ آج وہ ملک توقیر سے اسی سلسلے میں ملنے کیلئے صبح سویرے سے ہی آ کر بیٹھا ہوا تھا۔
ملک صاحب سہہ پہر کو دفتر آئے اور مرزا کہانی کو دیکھتے ہی انکا موڈ خراب ہوگیا۔ فلم خوب چل رہی تھی لیکن مرزا کہانی کا اس میں کہیں نام نہیں تھا فلم کے رائٹر کے طور پر ملک صاحب نے اپنے بیٹے کا نام ٹائٹل میں دیا ہوا تھا۔
ملک صاحب نے اسے کمرے میں بلوایا اور غصے سے بولے!
مرزا تمہیں سمجھ نہیں آتی جو مل گیا وہ کافی ہے بے شرموں کی طرح منہ اٹھا کر چلے آتے ہو۔
مرزا تیار تھا بولا:ملک جی! فلم اللہ کے فضل سے کامیاب چل رہی ہے، مائی باپ! مجھے تو پچاس ہزار سے زیادہ دیں خوشی کا موقع ہے۔
ملک توقیر اس کو گھور کر بولا:مرزا تو نے کونسا تیر مارا ہے ساری کہانی تو تیار تھی کچھ ڈائیلاگ ہی تو نے لکھے تھے تیری اوقات سے زیادہ تجھے دے دیا ہے اور کیا چاہتا ہے۔
مرزا بولا: ملک جی اوقات کی باتیں چھوڑیں میں غریب آدمی ہوں اس خوشی کے موقع پر مجھے دھتکار کر بدشگونی تو نہ کریں۔
ملک توقیر نرم پڑ گیا جیب سے ہزار ہزار کے پانچ نوٹ نکالے اور میز پر اسکے سامنے پھینک کر بولا:مرزا یہ رکھ لے اور اب اپنا رنڈی رونا دوبارہ نہ کرنا، وہ دوسری فلم کے سین تجھے لکھنے کو دئیے تھے وہ کہاں ہیں؟
مرزا بولا ملک جی جب آپ بیٹھائیں گے لکھ دونگا۔
ملک بولا: جا پھرابھی دفع ہو جا۔
مرزا کہانی رات کو گھر آیا تو بچے سو چکے تھے، اس نے پانچ ہزار روپے بیوی کے ہاتھ پر رکھے تو بیوی کی باچھیں کھل گئیں بس یہیں مرزا نے ملک جی کی اگلی فلم کے رومانوی منظر کے ڈائیلاگ بولنے شروع کر دئیے۔
مرزا کی بیوی شرما کر دوہری ہوئی جارہی تھی۔
مرزا نے بیوی کو بانہواں میں بھرا تو وہ بولی:مرزا گیس آ نہیں رہی سیلنڈر کئی ہفتے ہوئے خالی پڑا ہے اس کڑاکے کی سردی میں نلکے کے ٹھنڈے پانی سے میں نے نہیں نہانا صاف سیدھی بات ہے۔
مرزا کہانی اٹھا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔
کچھ دیر بعد اسکی بیوی اسے دیکھنے باہر گئی تو مرزا باورچی خانے میں چولہے پر پانی کی دیگچی چڑھائے ہاتھ میں ملک توقیر کی اگلی فلم کا مسودہ لئے بیٹھا تھا وہ اس میں سے چند ورق پکڑ کر ملک کو ننگی گالیاں دیتا اور پھر وہ ورق چولہے میں جلتی آگ میں ڈالتا جاتا۔
مسودہ جل رہا تھا پانی گرم ہو رہا تھا۔