Mere Abbu Ji
میرے ابو جی
زندگی کو جینے کا ہنر سیکھا کر ہماری تربیت کرنے والے میرے والد محترم میرے ابو جی اپنے خالق کے حضور حاضر ہو گئے، خالق کائنات اپنے اور اپنے رسول ﷺ کے عاشق بندے کیساتھ اپنی شان کے مطابق اپنے فضل کا معاملہ فرمائے آمین۔
انہوں نے اپنی زندگی دین کے احکامات کے تابع اصولوں پر گزاری اور اسی کی تربیت کی۔ اپنا معمول ہی ہمیں سیکھایا کہ ہر زیادتی، ظلم اور حق تلفی پر دوسروں کو رات سونے سے پہلے معاف کر کے سوئیں۔ کئی سال سے علیل ہونے کے باوجود اپنی سماجی خدمات کو جاری رکھا یہ انکی علالت کا عرصہ ہماری عملی تربیت کا باعث بن گیا۔ آخری رات نقاہت کے باعث بولنا مشکل ہو گیا تھا، پھر غنودگی ہونے لگی تو سب انہیں ہوش میں رکھنے کیلئے باری باری پکارتے، لیٹے ہوئے کبھی آنکھیں تھوڑی سی کھول لیتے، میں سامنے ہوا تو چھوٹے بھائی نے انکے کان میں کہا "پاء جی کھڑے ہیں۔ "
میں لاڈ سے جیسے انہیں بلاتا تھا ویسے ہی آواز دی، "بادشاہو ادھر تو دیکھو۔ " ابو جی نے آنکھیں کھولیں اور دونوں بازو پھیلا دئیے ہم دونوں حسب عادت بغلگیر ہوئے لیکن یہ جپھی میرے سارے ضبط کے بندھن توڑ گئی، چھوٹے بہن بھائیوں کے سامنے مجھے ساجد صاحب کہنے والے مجھے دلیر اور حوصلہ مند رہنے کی تلقین کرنے والے ابو جی نے میرے اندر کا انکی محبت میں سرشار جذباتی ساجد گھسیٹ کر آنسوؤں کیساتھ باہر نکال دیا۔
حسب عادت انکے حکم کے مطابق قرآن پاک کی تلاوت رات بھر جاری رکھی، ہمارے علاقہ کے پہلے تجوید کیساتھ قرآن پاک پڑھانے والے نابینا حافظ شوکت صاحب کے وہ شاگرد تھے انہوں نے ہم سب بہن بھائیوں، رشتہ داروں اور علاقہ میں کئی لوگوں کو قرآن پاک پڑھایا، انکی زبان میں لکنت تھی جو دوران گفتگو موجود ہوتی لیکن قرآن پڑھتے ہوئے، آزان دیتے ہوئے، نعت پڑھتے ہوئے انہیں کبھی لکنت، ہکلاہٹ نہیں ہوئی یہ اللہ کا کرم تھا، وہ کئی سورتوں کے حافظ تھے ہمیں اونچی آواز میں پڑھنے کا کہتے اور جب کبھی سبقت لسانی ہو جاتی تو انکی کڑک دار آواز میں درستگی کیلئے لقمہ مل جاتا، اس رات دوبار سبقت لسانی ہوئی لیکن اُدھر سے خاموشی رہی تو دل بھرا گیا۔
رات سحری کی حدود میں داخل ہوئی، اللہ کے سامنے التجا رکھی لیکن اسکی حکمتیں وہی جانتا ہے۔ یکم نومبر، 3 ربیع الاول جمعہ کا دن طلوع ہو گیا، چھوٹے بھائی محمد ماجد نے کویت سے آج رات کو ہی روانہ ہو کر اگلے دن پہنچنا تھا اس نے ویڈیو کال کی اُنہیں آواز دی تو آنکھیں کھول کر موبائل پر اسے دیکھا بس یہ آخری لمحات تھے پھر آنکھیں بند کیں تو دل کی دھڑکن بھی بند ہو گئی، ہمارے ابو پرسکون چہرے کیساتھ ابدی نیند سو گئے۔
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔
میرے مرشد، میرے استاد، میرے رہبر، میرے ابو جی میری قوت گویائی تھے میری طاقت تھے۔ انہوں نے زندگی گزارنے اور زندگی جینے کا فرق سمجھایا۔ انکے دئیے اعتماد کے باعث کسی فیصلے، کسی کام سے کبھی خوفزدہ نہیں ہوا۔ انکے پاس ہمیشہ کسی ضرورت مند کا کوئی کام حل طلب موجود ہوتا تھا، وہ مجھے اپنے مخصوص محبت بھرے لہجے میں بتاتے کہ "ساجد صاحب یار یہ کام کرنا ہے۔ " اور پھر جی ابو جی! کہہ کر میں انکے ساتھ کوششوں میں لگ جاتا یہ ہمارا معمول تھا۔
یہ ضرورت مند اکثر وہ لوگ ہوتے تھے جو خود ان تک نہیں آتے تھے بلکہ ابو جی انہیں ڈھونڈ نکالتے تھے۔ آج جب زندگی کے معمولات پھر سے شروع کر رہا ہوں تو اب انکی تفویض کی ہوئی بہت سی ذمہ داریاں بھی سامنے ہیں، دعا کریں مجھے اللہ ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کی توفیق دے اور اللہ ربّ العزت ان کیساتھ اپنی شان کے مطابق اپنے فضل کا معاملہ فرمائے، آمین