Mazdoor Aur Mazloom
مزدور اور مظلوم
چند سال پہلے کی بات ہے، یکم مئی کی چھٹی گزار کر عنایت اللہ اگلے دن یعنی دو مئی کو اپنے دفتر پہنچا، یہ ایک کیمیکل بیچنے والے تاجر کا گودام تھا اسی میں دفتر بنایا گیا تھا عنایت اللہ اسی دفتر میں مینجر تھا۔
اس نے مرکزی دروازہ کھولا اور اپنے ساتھ موٹر سائیکل پر آنے والے اپنے دوست کے بیٹے قاسم کو چابیاں پکڑا دیں جو روزانہ مہمان خانہ، دفتر اسکے ملحقہ واش روم اور گودام کے تالے کھولتا تھا سب تالے دفتر میں ایک جگہ رکھ کر چابیاں عنایت اللہ کے میز والے دراز میں ڈال دیتا، آج بھی ایسا ہی ہوا۔
کچھ ہی دیر بعد اس گودام کا مالک شیخ فیصل بھی آ گیا سب میں دعا سلام ہوئی اور روزانہ کی طرح معمول کی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔ گاہکوں کو ٹیلی فون کئے گئے، جن کو مال جا چکا تھا انکے بل پرنٹ کئے گئے اور جہاں سے آرڈر وصول ہوئے تھے ان کو مال بھیجنے کیلئے کاغذی کاروائی مکمل کی گئی۔
گودام سے کیمیکلز اسی علاقہ میں گدھا گاڑیوں کے زریعے بھیجے جاتے تھے، شہر سے باہر کیمیکل کے توڑے (بیگ) اور ڈرم بھیجنے کیلئے گدھا گاڑیوں پر ہی ٹرک اڈہ تک انہیں بجھوایا جاتا تھا۔
اس دوران انتظار کر رہے مزدوروں اور گدھا گاڑی والوں نے بتایا کہ کل شہر میں جلوس اور ریلیاں نکالی گئیں ان سب کو وہاں لے جایا گیا تھا مزدور لیڈروں نے تقریریں بھی کیں، ریڑھی والوں کے بھی دو لوگ ان رہنماؤں میں شامل ہیں ایک پطرس مسیح اور دوسرا شبیر ریڑھی والا۔
اچانک قاسم نے آ کر بتایا کہ عنایت صاحب گودام کے اندر جگہ نہ ہونے کی وجہ سے جو ڈرم باہر رکھےہوئے تھے وہ پرسوں بارہ رہ گئے تھے آج وہاں دس ڈرم پڑے ہیں۔ گودام کا نقشہ یوں تھا کہ صدر دروازے سے داخل ہوتے ہی سامنے اور دائیں طرف وسیع لان تھا جس کے اطراف درخت لگے ہوئے تھے اسی میں چاروں اطراف کیاریاں بھی بنی ہوئی تھیں جن میں پودے لگے ہوئے تھے اور لان میں خوبصورت سبز گھاس تھی۔ بائیں طرف اینٹوں کی سولنگ والا رستہ بنا ہوا تھا جو مہمان خانے اور دفتر کے سامنے سے گذرتا ہوا گودام کے دروازے تک جاتا تھا، اسی راستے کے شروع میں بائیں طرف سیڑھیاں چھت کو جاتی تھیں۔
عنایت اللہ نے قاسم سے کہا جا کر دوبارہ دیکھو ڈرم اندر پڑے ہونگے یا تمہیں گننے میں غلطی ہوئی ہو گی۔
قاسم گیا اور کچھ دیر بعد واپس آ کر پریشانی سے بتایا کہ دو ڈرم غائب ہیں، مجھے اچھی طرح یاد ہے یہ پرسوں میں نے خود گنے تھے یہاں صحن میں بارہ ڈرم ہی تھے اس سے پہلے تین ڈرم شیخ سفیان صاحب کی فیکٹری بھیجے تھے۔
عنایت اللہ اٹھا اور خود جا کر گودام اور باہر رکھا مال چیک کر کے آیا، پھر آتے ہی اس نے اپنے اسٹاک رجسٹر کو چیک کیا، ایسا بھی نہیں تھا کہ کسی دوسرے کیمیکل کی جگہ یہ ڈرم غلطی سے چلے گئے ہوں، گیٹ پاس کی کاپیاں بھی دیکھیں اور پھر پریشانی سے فیصل شیخ کو بتایا کہ سر مجھے لگتا ہے دو ڈرم چوری ہو گئے ہیں۔
چوری ہو گئے ہیں! فیصل نے حیرت سے اسکو دیکھا۔
عنائت صاحب گودام کی چابیاں آپکے پاس ہوتی ہیں، آپ خود شام کو تالے چیک کر کے جاتے ہو، اپنی نگرانی میں تالے کھلواتے ہو، جو مال آتا ہے یا جو مال جاتا ہے آپ خود چیک کرتے ہو گنتی کرتے ہو پھر یہ کیسے ممکن ہے، آپ چیک کریں ہو سکتا ہے کسی پارٹی کو بھجوائے ہوں اور گیٹ پاس یا اسٹاک رجسٹر میں غلطی ہو گئی ہو۔
عنایت اللہ نے کہا سر میں سب تفصیل سے چیک کرچکا ہوں میری سمجھ سے باہر ہر کہ ڈرم کہاں گئے؟
شیخ فیصل بولا اس گودام والی عمارت کی چار دیواری پندرہ فٹ اونچی ہے ایک ہی دروازہ ہے جو بند تھا سیڑھیاں بھی پندرہ فٹ اونچی چھت پر جاتی ہیں چھت کی چاردیواری بھی چار فٹ اونچی ہے، اس 120 کلو والے ڈرم کو سیڑھیوں سے اوپر لے کر جانا پھر چار فٹ دیوار سے اٹھا کر باہر گلی میں پھینکنا جو گودام کی عمارت سے تین فٹ نیچے ہے، یعنی کوئی بائیس فٹ سے 120کلو کا ڈرم صحیح سالم نیچے اتارنا سب ناممکن ہے۔ یا تو کسی کے پاس اس تالے کی چابی ہے جو دروازہ کھول کر لے گیا ہے یا پھر ہمیں غلطی لگ رہی ہے ڈرم چوری نہیں ہوئے۔
عنایت اللہ نے کہا فیصل صاحب اندر گودام اور باہر مین گیٹ کو دو دو تالے لگتے ہیں اور ہم یہ تالے آپس میں بدل بدل کر لگاتے ہیں چابیاں سارا دن میرے پاس ہوتی ہیں میری سمجھ نہیں آرہا کیا چکر ہے۔
بحث چلتی رہی عنایت اللہ پریشان تھا کہ زمہ داری اسی کی ہے اگر چور نہ پکڑا گیا تو الزام اس پر بھی آسکتا ہے، وہ قاسم کے بارے میں باریکی سے سوچ رہا تھا کہیں قاسم نے تو یہ چوری نہیں کی۔
اس دوران دوپہر ہو گئی اور قاسم کھانا کھانے قریبی ہوٹل پر گیا لیکن جلد ہی واپس آگیا۔
گودام سے مال نکلوا کو گدھا گاڑی پر لادنے کی نگرانی وہی کرتا تھا اس لئے اسے ساری معلومات ہوتی تھیں، اس نے عنایت اللہ سے بات کی، چاچا جان آپ جانتے ہیں جس کیمیکل کے ڈرم چوری ہوئے ہیں وہ ہماری نئی آئٹم ہے اور ابھی پچھلے ہفتے ہی ہم نے اسکی فروخت شروع کی ہے تین فیکٹریوں کو مال گیا ہے میرا خیال ہے کہ ابھی انکا ایک ایک ڈرم بھی استعمال نہیں ہوا ہو گا، میں کھانا کھانے ہوٹل پر گیا تو سامنے جو بار دانہ خالی ڈرموں کے لین دین کی دوکان ہے وہاں اس کیمکل کے دو خالی ڈرم رکھے تھے، میں نے اس دوکان کے مالک چاچا سرور سے پوچھا کہ یہ کہاں سے خریدے ہیں تو اس نے بتایا کہ کل شام کو شبیر ریڑھی والا بارہ سو روپے میں بیچ کر گیا ہے۔
میں اسی وقت آپ کے پاس آ گیا ہوں، آپ فیکٹریوں سے پتہ کریں انہوں نے شبیر ریڑھی والے کو ڈرم بیچے ہیں کہ نہیں۔
شیخ فیصل جو ساتھ ہے اپنی کرسی پر بیٹھا تھا بولا ہاں فیکٹریوں سے پتہ کرو کیونکہ کئی فیکٹری مالکان ان ریڑھی والوں کو انکی مدد کیلئے خالی ڈرم سستے داموں بیچ دیتے ہیں ہو سکتا ہے اسے کہیں سے اسی طرح ملے ہوں ہمیں کسی پر بھی چوری کا الزام بغیر ثبوت کے نہیں لگانا چاہیئے۔
عنایت اللہ نے تینوں فیکٹریوں میں فون کر کے پتہ کیا تو تینوں کے پاس ابھی پہلا پہلا ڈرم بھی خالی نہیں ہوا تھا لہذا بیچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
اب یہ تو واضح ہو گیا تھا کہ یہ وہی چوری ہوئے ڈرم تھے لیکن یہ خالی ڈرم شبیر کو کہاں سے ملے؟ کیا شبیر نے چوری کی؟ اس نے 135 روپے کلو والا 240 کلو کیمیکل کس کو بیچا؟ کہاں چھپایا؟
قاسم اور کچھ لوگ گئے اور شبیر ریڑھی والے کو ڈھونڈ لائے۔
اب تفتیش کا ایک طویل مرحلہ شروع ہوا، بھر پور محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ شبیر نے تسلیم کر لیا ڈرم اسی نے چوری کئے تھے۔
لیکن کیسے؟
یہ معمہ باقی تھا آخر کیسے اس نے 120 کلو وزن کے ڈرم کو پندرہ فٹ کی دیوار پار کروائی یا تالے کیسے کھولے یا چھت سے انہیں گلی میں کیسے اتارا؟
سوال ہی سوال تھے اور جواب حیران کن تھا!
شبیر بولا میں نے چھت سے خالی ڈرم گلی میں پھینکے تھے!
تو کیمیکل کہاں گیا؟ شیخ فیصل اور عنائت بیک وقت بولے!
شبیر ریڑھی والے نے ایک لمبی سانس لی اور کہا میں نے دونوں ڈرموں کا کیمکل لان کی کیاریوں میں انڈیل دیا تھا۔
اس بار بھی شیخ فیصل اور عنایت اللہ دونوں ہی بولے مطلب تقریباً بتیس ہزار کا کیمیکل تم نے کیاریوں میں انڈیل دیا کیونکہ تم بارہ سو میں خالی ڈرم لے جا کر بیچنا چاہتے تھے!