Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Shad
  4. Kacha Gosht

Kacha Gosht

کچا گوشت

وہ اسلم کے قریب سے خاموشی سے گذرا تو اسلم کو حیرت ہوئی کہ آج میرا یار منیر بغیر رکے بغیر سلام کئے کیوں گذر گیا؟ اسلم اور منیر ایک ہی گلی میں رہتے تھے، بچپن ساتھ گذارا تھا۔ منیر غریب گھرانے سے تھا تعلیم راستے میں ہی چھوڑ کر گھر کی ضروریات کی خاطر محنت مزدوری میں آ گیا تھا۔ جبکہ اسلم نے تعلیم مکمل کی اور اب ایک بڑی فیکٹری میں اچھے عہدے پر ملازم تھا۔

اسلم نے آواز دی۔

بھائی منیر۔

کیا بات ہے؟ خیر تو ہے ناں۔

کن سوچوں میں گم ہو۔

منیر نے مشکل سے مسکراتے ہوئے کہا۔

اسلم بھائی اللہ کا شکر ہے، بس وہ گھر جانے میں دیر ہو رہی تھی، بس اسی دھیان میں آپکی طرف خیال ہی نہیں ہوا۔ اسلم نے پوچھا منیر یار پچھلے ہفتے ہمارے وہ پرانے دوست ملک صاحب کے بیٹے کی شادی تھی تم وہاں بھی نظر نہیں آئے؟ منیر بولا، اسلم بھائی وہ اسی دن ہمارے ایک عزیز ہیں انکی والدہ فوت ہو گئیں تھیں، بس ادھر ہی جانا پڑ گیا تھا۔

اسلم حیرت سے بولا لیکن منیر بھائی تمہاری بیوی تو اس دن بچوں سمیت سارا دن ہمارے گھر رہی تھی۔ میری بیوی نے بتایا تھا کہ ہم سب لوگ مل کر سردیوں کے کپڑے اور لحاف وغیرہ پیٹیوں اور ٹرنکوں میں سنبھالتے رہے تھے، وہ تو نہیں گئی فوتیدگی پر اس دن اور نہ ہی اس نے کسی فوتیدگی کا زکر کیا۔ منیر اب کچھ کسمسایا اور بولا، اسلم بھائی دراصل وہ میرے جاننے والے لوگ ہیں، ان سے ہمارے گھریلو تعلقات نہیں ہیں۔

اسلم چپ تو ہو گیا، لیکن مطمعن نہ ہوا۔ اچانک اسکی نظر منیر کے ہاتھ میں پکڑے لفافے پر پڑی۔ اسلم نے پوچھا، منیر یہ کیا لے جا رہے ہو؟ منیر یک دم چونکا اور بولا، یہ، یہ، یہ گوشت ہے۔ آج میں نےسوچا چاول میں ڈال کر پکاتے ہیں، اسی کو تو لانے میں دیر ہو گئی۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ تیزی سے گھر کی طرف بڑھ گیا۔ اسلم چند لمحے سوچتا رہا پھر دوڑ کر گھر گیا اور بیوی سے بولا۔

جو کچا گوشت فریزر میں رکھا ہے نکالو، جلدی کرو۔ بیوی حیران و پریشان اٹھی اور گوشت فریزر سے نکالتے ہوئے بولی تین پیکٹ بنا کر رکھے تھے کتنے نکالوں؟ اسلم بولا تینوں نکالو کچا گوشت سب نکالو۔ اسکی بیوی مزید پریشان ہو گئی اور جلدی سے جمے ہوئے تینوں پیکٹ بڑے لفافے میں ڈال دیئے۔ اسلم یہ لفافہ پکڑے دوڑ کر باہر نکل گیا۔ چند ہی لمحوں میں وہ منیر کے دروازے پر تھا۔

دروازہ کھٹکھٹایا تو منیر باہر آیا جسے ہاتھ سے پکڑ کر اسلم اس کے گھر میں داخل ہو گیا اور باورچی خانے کی طرف جانے لگا۔ اب منیر کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ اسلم کو ادھر جانے سے روک رہا تھا۔ لیکن اسلم باورچی خانے پہنچ گیا۔ منیر کی بیوی سرخ لفافے سے گوشت نما چھچھڑے نکال کر دھو رہی تھی۔ اسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور منیر رو رہا تھا۔ اسلم بھی دھاڑیں مار کر رونے لگا۔

منیر تم فاقوں کا شکار تھے اور ہم غافل رہے تم ہماری گلی میں بھوکے بچوں کو سلاتے رہے اور ہمیں خبر نہ ہوئی۔ میں یہ لال شاپر دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا کہ تم ان میں چھیچھڑے لے گر آئے ہو اس لال شاپر میں نہر کے کنارے پرندوں کو ڈالنے والا صدقے کا گوشت بکتا ہے۔ لیکن جب تم نے کہا کہ یہ گوشت پکانا ہے، تو مجھے ایسا لگا میرے جسم سے میری جان نکل گئی ہے۔

اگر تم یہ چھیچھڑے بچوں کو کھلا دیتے اور میرے گھر میں کچا گوشت رکھا رہ جاتا تو میں خالق کے سامنے کیسے جواب دیتا۔ منیر یہ کچا گوشت پکا لو اور ہمیں جہنم سے بچا لو خدا کیلئے بچا لو۔

Check Also

Akbar The Great Mogul

By Rauf Klasra