Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Shad
  4. Fasad

Fasad

فساد

اسلم نے اس جانب دوڑ لگا دی، جہاں سے اسے رونے اور چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں، یہ اسکی اپنی گلی تھی اس کو اندازہ ہو گیا تھا کہ آوازیں چاچا برکت کے گھر سے آ رہی تھیں۔ وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اسلم نے اندر جھانک کر کہا چاچا کیا ہوا؟ اور غیر ارادی طور پر وہ ڈیوڑھی میں داخل ہو گیا۔ چاچا برکت دونوں ہاتھوں سے منہ کو ڈھک کر ہچکیاں لے کر رونے لگا۔

اسلم نے زمین پر بیٹھ کر چاچا برکت کو اپنے سینے سے لگایا اور پوچھا چاچا جی کچھ تو بتائیں آخر کیا ہوا ہے؟ اسلم کی آواز بھی بھرا گئی۔ چاچا برکت اپنی ہچکیاں روکتے ہوئے بولا پتر اسلم میں لٹیا گیا میں برباد ہو گیا، یہ کہتے ہی پھر اس کا ضبط ٹوٹ گیا، اسلم بھی رونے لگا، اتنے میں گلی سے گذرنے والے اور لوگ بھی آ گئے۔ نیاز پہلوان اور حکیم نذیر بھی زمین پر بیٹھ گئے، ملک افتخار بولا بھائی اسلم چاچا برکت کو کیا ہوا ہے؟

اسلم بولا میں بھی یہی پوچھ رہا ہوں، لیکن چاچا روئے جا رہا ہے کچھ بتا ہی نہیں رہا۔ نیاز پہلوان نے آگے بڑھ کر اپنے صافے سے چاچا برکت کے آنسو صاف کئے اور پوچھا میرے ویر میرے یار کیا ہوا ہے تجھے؟ نیاز یار مجھے پتہ نہیں کن گناہوں کی سزا ملی ہے میں برباد ہو گیا، یہ کہتے ہی چاچا برکت پھر رونے لگا۔ نیاز پہلوان نے چاچا برکت کو گلے لگا لیا۔

چاچا برکت پھر ہچکیاں روکتے ہوئے بولا تم ہی بتاؤ میں نے کبھی کسی کو دھوکہ دیا کسی سے زیادتی کی؟ پھر مجھے کیوں یہ سزا مل رہی ہے؟ نہیں چاچا ہم تو سب آپ کی مثال دیتے ہیں، آپ نے ہمیشہ محنت سے حلال کمایا سب کیساتھ بہت اچھا تعلق رکھا کسی سے لڑائی جھگڑا ہم نے نہیں دیکھا ہم حیران ہیں۔ چاچا جی آپ کس سزا کی بات کر رہے ہیں؟ اسلم نے یہ کہتے ہوئے اب اپنے آنسو رومال سے پونچھے۔

چاچا برکت بولا آج تو جیسے میری دنیا لٹ گئی میں نے اپنی زندگی سے کچھ نہیں کمایا، آج میرے پتر نے میرے سراج نے مجھے ذلیل کر دیا، وہ مجھ پر چیخا چلایا اور مجھے کہنے لگا، ابا تجھے کچھ نہیں پتہ، تمہیں پہچان ہی نہیں کہ ملک دشمن کون ہے، مجھے کہتا ہے ابا تم، اور چاچا برکت کی ہچکی پھر بندھ گئی۔ اپنی آنکھیں پونچھتے ہوئے رک رک کر چاچا برکت نے اپنی ہمت جمع کی اور بولا۔

میرا پتر سراج مجھے کہتا ہے

ابا تمہارے دماغ میں خرابی ہے۔

تم گدھے ہو۔

تم غلام ہی رہو گے۔

چاچا برکت نے روتے ہوئے سب کی طرف دیکھا اور پوچھا مجھے بتاؤ میرے پاس کیا بچا ہے؟ میں روؤں نہ تو کیا کروں؟ حکیم نذیر بولا اللہ ہدایت دے پتہ نہیں کیا زمانہ آ گیا ہے۔ اب اولاد خود کو عقلمند سمجھتی ہے اور ماں باپ کو بے وقوف، ٹھیک ہے پڑھائی چار باتیں سیکھا دیتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ والدین کی عزت و احترام ہی بھول جائیں۔

نہ تو چاچا مسلۂ کیا ہوا آخر کس بات پر تم باپ بیٹا میں لڑائی اس حد تک پہنچ گئی، ملک افتخار نے پوچھا۔ چاچا برکت بولا پتر بس ووٹ ڈالنے کی بات ہوئی تو میں نے کہا، جس نے ہمارے مسلے حل کئے ہیں۔ اسے ہی ووٹ دینا ہے۔ بس سراج کو تو جیسے آگ ہی لگ گئی، اس نے سوچا ہی نہیں کہ سامنے میرا باپ ہے اور مجھے ذلیل کر دیا۔ اسلم بولا چاچا اس الیکشن نے تو گھر گھر لڑائی ڈال دی ہے۔

الیکشن ہو جائیں تو ہماری جان چُھٹ جائے گی اس فساد سے۔ چاچا اسلم بولا پتُر یہی تو رونا ہے یہ فساد جو اپنے باپ کو گدھا کہہ دے اب الیکشن کے بعد بھی ختم ہونے والا نہیں۔ اب ڈیوڑھی میں چاچا برکت کی سسکیاں تھیں، سب کی آنکھوں میں پانی اور مکمل خاموشی۔

Check Also

Kitabon Ka Safar

By Farnood Alam