Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Shad
  4. Eid Ka Aik Din Old Home

Eid Ka Aik Din Old Home

عید کا ایک دن اولڈ ہوم

اپنوں کی راہ دیکھتی سفیدآنکھیں، اداس چہرے لیکن دعائیں دیتے ہونٹ اس اولڈ ہوم کی ساری کہانی ہے۔ بھائی فرحان اُسی محبت اور تندہی سے خدمت میں مصروف ہیں جس جانفشانی کیساتھ ہم انہیں برسوں سے یہ خدمت کرتا دیکھ رہے ہیں۔

گذشتہ سال سات بزرگ مرد و خواتین یہاں انتقال کر گئے اور اکثر کے لواحقین انکی میتیں لے گئے تاکہ اپنے آبائی علاقوں میں دفن کریں اور اپنے علاقہ اور رشتہ داروں میں سرخرو ہو سکیں، وہ سب مرنے والے زندگی میں ان لواحقین کے منتظر رہے انکے گلے لگنے انکے ہاتھوں کو چھونے ان اپنوں کو پیار کرنے کو ترستے رہے لیکن موت کے بعد ان لواحقین کا کندھا ہی انکے نصیب میں آسکا۔

فرحان بھائی اپنے انتہائی محدود وسائل کے باوجود اس اولڈ ہوم کو ہمیشہ بہتر کرنا چاہتے تھے لیکن ہر دفعہ بزرگوں کوئی ہنگامی ضرورت وسائل کو استعمال کر جاتی۔ اب انہوں نے اس جگہ کو بیچ کر نسبتا بہتر علاقہ میں جگہ خرید لی ہے آج کی ضروریات کے مطابق عمارت بنانے کا کام جلد شروع ہو رہا ہے۔ انشااللہ رواں سال میں یہ بزرگ لوگوں کیلئے پرانی عمارت والا اولڈ ہوم تبدیل ہو کر اچھا نیا گھر میں منتقل ہو جائے گا۔

ایک سب کیلئے اطلاع ہے کہ گوجرانوالہ میں ایک مزید اولڈ ہوم کی تعمیر جاری ہے اسکی تفصیلات کیلئے الگ تحریر لکھیں گے، الحمدللّٰہ گرین لایٹ اس پراجیکٹ میں باقاعدہ ورکنگ پارٹنر ہے۔

بھائی فرحان بہت خوش تھے وجہ پوچھی تو فرمایا آج میری ایک بزرگ (وہ ہمیشہ سب کو میرے بزرگ کہہ کر ہی مخاطب کرتے ہیں)، آپا زبیدہ کو ملنے سیالکوٹ سے انکے جیٹھ کا بیٹا آ رہا ہے، یہ اپنے چچا کے انتقال کے بعد سے چچی کی خیریت انکے بھائیوں سے پوچھتے رہتے تھے جنہوں نے نہ تو کبھی بات کروائی نہ یہ بتایا کہ ہم اپنی بہن کو اولڈ ہوم چھوڑ آئے ہیں اب انہیں معلوم ہوا تو وہ رابطہ کر کے چچی کو ملنے آ رہے ہیں۔

ایک نہایت مستعد خاتون نسیم صاحبہ ہیں لگتا ہے اللہ نے ان کو مشن پر یہاں بھیجا ہے اس وقت یہ ان سب بزرگوں کی خدمت کی نگران ہیں انکے دو بیٹے تین بیٹیاں ہیں سب شادی شدہ ہیں، بیٹوں کے پاس یہ نہیں رہنا چاہتیں حالانکہ وہ شدید خواہشمند ہیں متعدد بار اپنے خاوندوں کیساتھ آ چکیں، بیٹوں کے پاس رہنا چاہتی ہیں لیکن بہووں سے بالکل نہیں بنتی نتیجہ وہ یہاں ہیں اور سب بزرگوں کیلئے ایک مظبوط مددگار میسر ہے۔

ایک یونس صاحب شاہدرہ سے ہیں بیٹا رکشہ چلاتا ہے یہ فالج کے اٹیک کے بعد صرف چلنے پھرنے کے قابل رہ گئے لیکن کوئی کام نہیں کر سکتے اپنی ضروریات کیلئے بھی انہیں مدد درکار ہوتی ہے بیٹا انہیں یہاں چھوڑ گیا کہ وہ باپ کی دیکھ بھال نہیں کر سکتا۔

ایک اشرف صاحب ہیں انکی بھی اہلیہ فوت ہو چکیں ایک بیٹا ہے جو نشئی ہے سب اس نے بیچ کر اجاڑ دیا وہ یہاں اپنی زندگی پوری کرنے کیلئے مقیم ہو گئے۔

یہاں کے پرانے فرد عظیم صاحب ہیں جنکی ایک بیٹی شادی شدہ اور ملک سے باہر ہے بیٹا بھی ایک ہے جو ابوظہبی ہوتا ہے انکی اہلیہ کی وفات کے بعد وہ آیا اور مکان بیچ کر چلا گیا یہ چند ہفتے مختلف رشتہ داروں کے پاس رہے پھر یہاں آ گئے، بیٹا واپس نہیں پلٹا کچھ مزید بیچنے کو ہوتا تو وہ بھی آتا۔

رفیق صاحب ابھی چند روز ہوئے گجرات سے آئے ہیں انکے پانچ بیٹے ہیں سب ملک سے باہر ہیں دو یتیم بھتیجے انہوں نے پالے اور اپنی سات ایکڑ زمین انہیں کاشت کاری کیلئے دے رکھی ہے اپنے بیٹوں کا بھیجا ہوا خرچہ بھی انہیں دیتے رہے اب یہ بھتیجے زمین اپنے نام لگوانا چاہتے ہیں اسکے لئے انکی جان کے درپے ہیں یہ اپنے بیٹوں کے کہنے پر عارضی طور پر یہاں پناہ لئے ہوئے ہیں انکے بیٹے اس ماہ آئیں گے اور معاملہ حل کریں گے انکو امید ہے کہ وہ اپنے ساتھ بیرون ملک لے جائیں گے۔

آصف صاحب بھی یہاں نئے ہیں یہ سادہ اور شریف سیدھے سادھے آدمی ہیں ساری عمر شادی نہیں کی تین بھائی ہیں یہ چھوٹے بھائی کے پاس رہتے تھے مسجد میں نماز پڑھنا قرآن پڑھنا دوستوں کے پاس بیٹھنا پھر رات کو گھر آ کر سو جانا زندگی بھر انکا معمول رہا اب بھائی فوت ہو گیا ہے تو بھاوج انہیں اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتیں، دوسرے بھائی اور بھتیجوں نے ذمہ داری نہیں لی تو یہ اولڈ ہوم آ گئے یہاں بھی قرآن پڑھتے ہوئے ہی کچھ دیر ان سے ملاقات ہوئی۔

باقی سب کی بھی اپنی الگ کہانی ہے۔

سب سے تفصیلی مکالمہ ہوا اولاد کی نالائقیوں کوتاہیوں پر بات ہوئی تو انہوں نے اپنی غلطیاں بھی تسلیم کیں کچھ درگذر اور صبر کے فلسفہ پر گفتگو ہوئی۔

سب نے وعدہ کیا کہ وہ اپنے پیچھے آنے والوں کی معافی قبول کریں گے اور اللہ کی رضا کیلئے انکی نالائقیوں گستاخیوں کو معاف کریں گے اور زندگی کو اپنوں کیساتھ آگے بڑھائیں گے۔

واپسی پر ٹیم گرین لایٹ کے نوجوانوں اور بچوں سے انکے خیالات پوچھے تو سب نے اپنے جذبات کا اظہار کیا، سب نے ان بزرگوں کے عزیزو اقربا کیساتھ رابطہ اور اصلاح احوال کی کوشش کی تائید کی۔

خواتین و حضرات!

ان ٹوٹے دلوں نے اپنے دکھ بیان کئے اپنی محرومیوں کا زکر کیا اپنوں کی زیادتیوں کے قصے سنائے لیکن انکی اپنی اولاد کیساتھ محبت کا اندازہ کیجئیے کہ ان میں سے کسی نے اپنی اولاد کو بددعا نہیں دی۔

Check Also

Riwayat Aur Ijtehad

By Muhammad Irfan Nadeem