Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sajid Shad
  4. Bas Issy Qabool Kar Lo

Bas Issy Qabool Kar Lo

بس اسے قبول کر لو

یہ ان دنوں کی بات ہے جب والد صاحب کو اپنے پارٹ ٹائم کاروبار میں اپنے پارٹنر کے غلط فیصلے کے باعث زبردست نقصان ہوا تھا اور ہم شدید مالی بحران کا شکار تھے۔ میں گھر میں بڑا تھا اور شروع سے ہی والد صاحب نے اپنے ہر کام میں شامل کر رکھا تھا، میں ان دنوں پڑھائی کے ساتھ اک جنرل اسٹور پر سیلز مین کی پارٹ ٹائم جاب کر کے کچھ آمدن کیلئے کوشش کر رہا تھا۔

ایک دن والد صاحب نے کہا چلو بازار جانا ہے، ہم دونوں سائیکل پر بازار روانہ ہو گئے۔ اب وہاں خریداری شروع ہوئی تو میری استفہامیہ نظروں کو بھانپتے ہوئے وہ بولے کل کمیٹی نکل آئی تھی آج اس کے پیسے ملے ہیں، میں بھی مطمئن ہو گیا کہ چلو گھر کیلئے کچھ ضروری سامان اب ہم خرید ہی لیں گے۔ ابا جی نے تین زنانہ دو مردانہ سوٹ خریدے، ایک اسٹین لیس اسٹیل کا ڈنر سیٹ خریدا، ایک چینی کا ٹی سیٹ لیا اور بازار سے روانہ ہوئے۔

میں سوچ رہا تھا اماں کچھ دن سے جن چیزوں کی لسٹ بنائے بیٹھی ہے وہ تو کچھ اور ہیں اور ابا جی نے تو کچھ اور ہی خریداری کر لی ہے۔ خیر ہم بازار سے نکلے تو اپنے روڈ پر آ گئے لیکن اپنے گھر کی طرف جانے کی بجائے ابا جی دوسرے علاقے کی جانب مڑے تو میں نے پوچھا کچھ اور بھی خریدنا ہے؟ تو وہ بولے، آخو یار۔ کچھ ہی دور ایک بیکری پر رکے یہاں ہم نے ایک کریٹ جوس کے ڈبوں کا خریدا، ایک کلو بسکٹ لئے اور پھر سائیکل پر آگے روانہ ہو گئے۔

ایک کچی آبادی میں داخل ہو کر ابا جی نے جس بندے کا گھر ایک دوکاندار سے پوچھا اسے میں اچھی طرح جانتا تھا لیکن یہ ساری گتھی سلجھ نہیں رہی تھی۔ اس کا گھر بھی آ گیا۔ ہم نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے وہی شخص نکلا۔ ہمیں دیکھ کر وہ حیران پریشان ہو گیا اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے؟ ابا جی سائیکل سے سامان اتار کر مجھے پکڑا رہے تھے ساتھ ہی اسے بھی کہا یار سامان پکڑو دیکھتے کیا ہو؟ اس نے سامان پکڑا ہم لوگ اس کے گھر میں داخل ہو گئے۔

ابا جی نے کہا جا یار تھالی لے کر آ، پھر کچھ بسکٹ نکال کر اس میں رکھے اور جوس کے پیکٹ نکال کر سب کو دئیے اس کی بیوی، اس کی تینوں بیٹیاں بھی حیران پریشان ہمارے سامنے چارپائی پر بیٹھی تھیں۔ وہ اور اس کا بیٹا ہمارے ساتھ چارپائی پر بیٹھے تھے ہم سب لوگ بسکٹ کھا رہے تھے اور جوس پی رہے تھے۔ پھر ابا جی بولے سلیم مسیح (فرضی نام) یہ تیرا سامان ہے میری طرف سے بیٹی کی شادی کیلئے بس اسے قبول کر لو، دعا کرنا میرے ربّ نے چاہا تو بارات کے وقت کچھ اور بھی انتظام ہو جائے گا، فکر نہ کریئے۔

وہ میاں بیوی دعائیں دے رہے تھے، بیٹیاں حیران بھی تھیں خوش بھی۔ ابا جی نے اجازت لی اور ہم وہاں سے نکل آئے۔ یہ سلیم مسیح ہمارے علاقے میں پہلے کارپوریشن کی طرف سے کوڑا کرکٹ گھروں سے اکٹھا کر کے بڑے کولیکشن پوائنٹ پر لے جاتا تھا، اب اس کا تبادلہ کسی اور علاقے میں ہو چکا تھا لیکن ابا جی اس سے رابطہ رکھے ہوئے تھے، اس نے بتایا تھا کہ بیٹی کی شادی ہے اور یہ ضروری چیزیں خریدنے والی رہتی ہیں ویسے بھی کوئی بڑا جہیز تو دینا نہیں تھا۔

ابا جی نے اسی وقت دل میں ارادہ کر لیا تھا کہ کمیٹی بر وقت نکل آئے تو اگرچہ اپنی شدید ضروریات بھی ہیں لیکن اب آدھی کمیٹی سلیم مسیح کی ہے۔ میں نے پوچھا ابا جی سامان تو چلیں ٹھیک ہے آپ نے خریدا لیکن وہ خود بھی تو آ کر لے جاتا آپ اس کے گھر کیوں پہنچانے گئے؟ ابا جی بولے، پُتر وہ غریب آدمی ہے اس کا حق تھا جو ہم نے اسے دیا تو اس کا درست طریقہ بھی یہی تھا کہ اس کے گھر پہنچا کر آتے۔

میرا تجسس ابھی ختم نہیں ہوا تھا میں نے پھر پوچھا لیکن ابا جی آپ نے جوس کا پورا کریٹ اور بسکٹ بھی اتنے سارے لے لئے؟ ابا جی ہنسے اور بولے پُتر ہم اس کے مہمان جا رہے تھے، غریب آدمی اپنے سے امیر مہمان کی آؤ بھگت میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کر ڈالتا ہے مجھے یہی خدشہ تھا اس لئے جوس اور بسکٹ ساتھ لے لئے کہ ہم اس پر بوجھ نہ بنیں، اور زیادہ اس لئے خریدے کیونکہ شادی والا گھر ہے اس کے کئی مہمان آنا ہیں یہ اضافی چیزیں اس کے کام آ جائیں گی۔

مجھے سبق مل گیا تھا۔

غریب کی مدد کیلئے مذہب نہیں دیکھنا، اس کو اپنے در پر آنے کیلئے مجبور نہیں کرنا اور اس کو آسانیاں دینا ہیں اس پر بوجھ نہیں بننا۔

Check Also

Khawarij Ke Khilaf Karwai Aur Taliban

By Hameed Ullah Bhatti