Kache Rang
کچے رنگ

پاکستانی سیاستدان جب اقتدارِ کی کرسی پر بے حد محنت کے بعد بیٹھتے ہیں۔ تو سب سے پہلا ان کا کام اپنے سیاسی دشمنوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہوتا ہے۔ پھر سارے کیسز دھڑا دھڑ ایسے ختم ہوتے ہیں۔ جیسے غریب کی ماہانہ آمدنی اس کے ہاتھوں سے پھسلتی ہے۔
ادلے کا بھرپور بدلہ لیا جاتا ہے۔ ہر وہ کام کیا جاتا ہے۔ جو اپنے دور اقتدار میں اپوزیشن نے ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ پھر بدلے کی ٹھنڈک کو اچھی طرح محسوس کرنے کے بعد انھیں اپنی بے بس، لاچار اور مجبور عوام پر پیار آنے لگتا ہے۔ یہ پیار بالکل ویسا ہے جو سارا دن کولہو کے بیل کی طرح پسنے کے بعد، ملازم پر اس کے مالک کو آتا ہے۔
سیاست دانوں کو بھی احساس ہوتا ہے کہ ہماری خاطر بیچاری عوام جلسوں میں رلتی رہی۔ نعرے لگا کر وفاداری ثابت کرتی رہی۔ اپنے خاندان کے لیے بعد میں پہلے ہمارے لیے دعائیں مانگتی رہی۔ جیل کی ہوا کھاتے ہوئے مقدمات کا سامنا بھی کرتی رہی۔
چلیں ان بیچاروں کو بھی کچھ ریلیف دے دیا جائے۔ پھر یہ حکمران+سیاست دان بڑی بڑی میٹنگز کرتے ہیں۔ جس میں یہ انتہائی سنجیدہ چہرے بنا کر فلاحی منصوبوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ دوسرے ممالک کے دورے کرتے ہیں۔ ان سے مشورے اور معلومات لیتے ہیں۔
بار بار عوام کو گلے سے لگا کر تسلیاں دیتے ہیں کہ ہم والدین سے بھی بڑھ کر تم لوگوں کے خیرخواہ ہیں اور خوبصورت تصویروں والے پروجیکٹس تمہارے لیے ہی ہیں۔ مگر حقیقت بالکل برعکس ہوتی ہے۔ کان کو سامنے سے پکڑیں یا ہاتھ پیچھے لے جا کر پکڑیں۔ عام عوام کو دونوں طرح سےہی تکلیف ہوتی ہے۔
مُجھے یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ مفادات کی جنگ میں پاکستان کے سب سیاست دان ایک پیج پر ہیں۔ ان میں کوئی فرق نہیں۔ سب سیاسی جماعتوں کے رویے بھی ایک دوسرے سے مختلف نہیں۔
اس سے آگے میری زبان بند اور ہاتھ لکھتے رک جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح ماضی میں نقادوں کی زبان بند ہو جاتی تھی۔
بس اتنا سمجھ لیں۔ اشرافیہ کی محبت کے رنگ بھی کچے ہیں۔ موسم کی سخت بارش بھی برداشت نہیں کر پاتے۔ دھل کے نکھرتے نہیں۔ بلکہ اصل رنگ سامنے لے آتے ہیں۔ جو دلفریب اور پر کشش ہرگز نہیں ہوتا۔