Wirasat
وراثت

کسی بھی گھر میں نئے مہمان کی ولادت خیر و برکت کا سامان ہوتی ہے۔ خوشیاں منائی جاتی ہیں، مٹھائی بانٹی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں معاشرتی بنیادوں پر دیکھا جائے، تو بیٹے کو بڑا ہو کر باپ کا ہاتھ بٹانے والا اور بیٹی کو رحمت کے ساتھ ساتھ ذمہ داری بھی تصور کیا جاتا ہے اور کہیں تو ناخوشی کا اظہار بھی کردیا جاتا ہے۔ دین اسلام میں اولاد سے مذکر، مونث کی تخصیص کے بغیر محبت اور شفقت کا حکم ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی اولاد سے مساوی سلوک کرنے کا حکم ہے۔ ہمارے ہاں اس حوالے سے کافی فرسودہ رسوم و رواج پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ وقت کے ساتھ ان میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ ورنہ کئی دہائیاں پہلے تو کچھ گھرانوں میں بیٹی کواعلی تعلیم دلوانا غیر ضروری سمجھا جاتا تھا۔ بیٹی بیاہ کر رخصت کرنے کے بعد والدین اس کے گھر جانے کو بھی معیوب خیال کرتے تھے۔
بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں ماں باپ جان لڑا دیتے ہیں۔ بچے کی انگلی پکڑ کر سکول میں داخلے کے پہلے دن سے لیکر اس کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے تک ایک کٹھن سفر طے کرتے ہیں۔ مالی، معاشی اور سماجی ذمہ داروں کو نبھاتے ہیں۔ تاکہ ان کے خون جگر سے سینچا ہوا پودا کل کو تن آور درخت بن کر ہر آندھی اور طوفان کا مقابلہ کر سکے۔ اس سارے سفر میں بہت سے دشوار موڑ آتے ہیں۔ لیکن اولاد کی محبت ان ساری مشکلات کا بوجھ ہنسی خوشی اٹھانے کا حوصلہ دیتی ہے۔ انکے اچھے مستقبل کی امید، ان کے کامیاب ہونے کے خواب انہیں ثابت قدم رکھتے ہیں۔ والدین اپنی محنت اور محبت کی ہر جمع پونجی اولاد پر ہنس کے نچھاور کر دیتے ہیں۔ حتی کہ ہمارے ارد گرد ہی ایسی مثالیں بھی نظر آتی ہیں جہاں والدین اپنی زندگی میں ہی اپنا مال و متاع بچوں کو سونپ کر اپنے ہی ہاتھ کٹوا بیٹھے اور ان کی خالی آنکھوں میں صرف سوال باقی رہ گئے۔
یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بچوں کی پیدائش کے بعد ماں باپ اپنے وسائل بڑھانے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں۔ تاکہ ان کو پر آسائش زندگی فراہم کرسکیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بچوں کے لئے سب سے زیادہ قیمتی اور اہم وہ وقت ہے جو والدین کی طرف سے ان کو ملتا ہے۔ ہر لمحہ جو آپ بچے کے ساتھ گزارتے ہیں، وہ اس میں کچھ نہ کچھ سیکھ رہا ہوتا ہے۔ گھر کے اندر وہ فضا اہم ہے، جو ان کو پر اعتماد بنائے، تاکہ وہ بلا خوف اپنا مسئلہ شئیر کرسکیں۔ والدین سے دوستانہ رویہ کے باوجود بچوں کو ان کے عزت و احترام کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔
اگرچہ وقت کے ساتھ نئی جنریشن کے حوالے سے اس میں کافی بدلاؤ آیا ہے۔ باپ کے قدموں کی آواز سن کر مؤدب ہو کر بیٹھ جانے والا بچہ کچھ بدل سا گیا ہے۔ اس کے حکم کو حرف آخر ماننے والا نوجوان آج دلائل کی بنیاد پر بحث یا بات چیت کے لئے میدان میں اتر چکا ہے۔ آج ماں کی پکی ہوئی ایک ہی ہانڈی سے سب بچوں نے خوشی خوشی کھانے کے بجائے اپنی فرمائش پہلے ہی بتا رکھی ہے۔ ہاں آج کا بچہ اس کا حق رکھتا ہے لیکن اس شرط پر کہ وہ تمیز اور تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے یہاں بھی والدین کو اپنی حدود کا تعین خود کرنا ہے، یعنی پیار اپنی جگہ لیکن عزت اور احترام لازم ہے۔
بہت سی مائیں بچیوں کی پیدائش کے ساتھ ہی پیٹی میں سامان ڈالنا شروع کر دیتی تھیں۔ جس میں گھریلو استعمال کی اشیا، برتن، بستر اور کمبل وغیرہ شامل ہوتے تھے اور وسائل کے مطابق اس میں اضافہ کرتی رہتی تھیں۔ آج بھی کئی گھرانوں میں یہ روایت قائم ہے۔ اسی طرح زمین، جائیداد کی منتقلی کا سلسلہ بھی چلتا رہتا۔ ایسی کئی پیٹیاں دیمک کی نذر ہو ئیں، جائداد و املاک تقسیم در تقسیم کے عمل سے انجام کو پہنچی۔ خاص طور پر وہاں جہاں دست و بازو استعمال کیے بغیر صرف اسی پرانحصار کیا گیا۔ ان سب چیزوں سے سے زیادہ بیش قیمت ہے وہ علم جو ایک بچے یا فرد کو بہتر انسان بناتا ہے۔ اسے کھرے کھوٹے کی پہچان سکھاتا ہے۔
علم مرد و عورت دونوں کے لئے یکساں اہم ہے۔ اگر مرد کو روزگار کمانا ہے تو عورت کو نسلوں کی تربیت کرنی ہے۔ آپ کی بیٹی کے بہترین ہتھیار وہ تعلیم اور تربیت ہیں جو آپ اسے دیں گے۔ تعلیم اس کا وہ زیور ہے جو اس کی شخصیت کو چار چاند لگاتا ہے۔ جسے چوری کے ڈر سے کسی محفوظ مقام پر نہیں رکھنا پڑتا۔ وہ اس تعلیم کو حصول روزگار کا ذریعہ بھی بنا سکتی ہے اور اپنی گھر گرہستی کو بہتر طور پر چلا سکتی ہے۔ اسے دلوں کو پیار اور محبت سے جیتنے کا گر سکھائیے۔ تاکہ اس کے گھر کی عمارت مضبوط ہو۔ تنگ دلی اور بغض کی بنیادوں پر پائیدار گھروندے بننا مشکل ہوتے ہیں۔
اچھی تربیت بچوں کے لئے انمول تحفہ ہے۔ بچوں کو بچپن اور نو عمری سے ہی اپنے چھوٹے موٹے کام خود کرنے کی عادت ڈالیں۔ اعلی تعلیم کے ساتھ اپنے بچوں کو لائف skills سکھانا جیسے کھانا پکانا، اپنے کپڑے خود دھونا اوراستری کرنا، اپنے کمرے کی صفائی کرنا وغیرہ، سلائی کرنا، گاڑی چلانا، ان کیلئے بہترین تحفہ ہیں۔ وہ کسی بھی نئی سرزمین پر چلے جائیں، یہ سب ہنر ان کی زندگی کو آسان بنا دیں گے۔ انہیں دین اور دنیا میں توازن رکھنا سکھائیے۔ بچوں کے سامنے مذاقاََ جھٹ بولنے سے گریز کریں تاکہ کہیں وہ اس عادت کو اپنا نہ لیں۔ اپنے بیٹوں کو بڑوں کا احترام کرنا سکھائیں۔ انہیں اپنے زور بازو پر یقین ہونا چاہیے، تاکہ وہ اپنے راستے خود بنا سکیں۔ اپنے بچوں کو یہ سب بتانے اور سکھانے کی کوشش اور اس میں تھوڑی کامیابی ہی ان کی بہترین وراثت ہے۔ جو ہمیشہ ان کی شخصیت کے ساتھ رہے گی۔