Tamashbeen
تماش بین

آج سائرہ کالج سے واپسی پر جیسے ہی گلی میں داخل ہوئی۔ اس کی دونوں پڑوسی خواتین سرجوڑے خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ ان کے انہماک سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ کسی کے خانگی معاملات کو ٹٹولا جا رہا ہے، یا پھر محلہ داروں کی ذاتی زندگی پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ سائرہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی، چہرے پر ناگواری اور جھنجلاہٹ کے آثار نمایا ں تھے۔
امی! جس دن میرا سٹوڈنٹ ویزہ لگا، میں تو خدا کا شکر ادا کروں گی کہ محلے کی اس سیاست سے جان چھوٹ گی۔ کچھ لوگوں کی زندگی کا مقصد ہی دوسروں کے بارے میں باخبر رہنا ہے۔ کون کیا کر رہا ہے؟ کس کا بچہ امتحان میں فیل یا پاس ہوا؟ کس کی بیٹی سسرال سے ناراض ہو کر میکے آگئی؟ کون سے گھر میں میاں بیوی کی آپس میں ان بن رہتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ سائرہ ایک ہی سانس میں سب کچھ بولے جا رہی تھی۔
ویسے امی آپ نے نوٹ کیا کہ اب یہ سب چھوٹے محلوں میں ہی ہوتا ہے۔ ہائی سوسائٹی میں سب لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے دائیں بائیں والے پڑوسی تک کا پتہ نہیں ہوتا۔ ہاں بیٹے تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ زمانہ بدل چکا ہے۔ اماں جب بھی فائزہ خالہ امریکہ سے پاکستان آتی ہیں، تو وہ وہاں کی کتنی اچھی باتیں بتاتی ہیں۔ میرا دل چاہتا ہی کہ میں تو بس سنتی ہی رہوں۔ تو پھر خوش ہوجاؤ، کہ میں نے آج ہی سنا ہے کہ تمہاری فائزہ خالہ اگلے ہفتے آرہی ہیں۔ پھر جی بھر کر ان سے باتیں کر لینا۔
فائزہ خالہ! آپ کو پتہ ہے کہ میں بھی آگے پڑھنے کے لئے امریکہ جانے کا سوچ رہی ہوں۔ اپلائی بھی کر دیا ہے۔ اتنے برسوں سے جتنی کہانیاں آپ سے سنتی آئی ہوں اب اپنی آنکھوں سے دیکھوں گی اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس محلے داری کی چخ چخ سے آزاد ہو جاؤں گی۔ فائزہ اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔ آپ تو تیس سالوں سے وہاں رہ رہی ہیں؟ آپ کو کتنا اچھا لگتا ہوگا کہ کوئی کسی دوسرے کے معاملے میں ٹانگ نہیں اڑاتا۔ ہر کوئی اپنی زندگی میں مصروف اور مگن ہے۔ تاکا جھانکی، چغلیوں یا بد خوئیوں کا وقت ہی نہیں ہے؟
بیٹا، کوئی بھی سوسائٹی پرفیکٹ نہیں ہوتی۔ اچھے برے لوگ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔ مغرب میں ہماری اعلی خاندانی اور معاشرتی اقدار کو بہت سراہا جاتا ہے۔ لیکن وقت بدلا تو لوگ بھی بدلے اور مغرب کی نقالی میں کہیں ہم سے وہ سب کھو گیا جو ہماری پہچان تھا۔ بھیڑ چال کے غلام لوگوں نے سوچے سمجھے بغیر اپنی اعلی اخلاقی اقدار سے منہ موڑ لیا۔ ہاں یہ درست ہے بیٹا کہ وہاں لوگ ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہیں رہتے، لیکن وہ اپنے ہمسائیوں سے دعا سلام تو رکھتے ہیں۔ اگر آس پڑوس میں کوئی کچھ دنوں تک نہ نظر آئے تو اس کے بارے میں دائیں بائیں پوچھ لیا جاتاہے کہ کوئی بیمار یا کسی مصیبت میں تو نہیں۔ اگر کسی کو مدد چاہییے تو چپکے سے کر دی جاتی ہے نہ کہ اشتہار لگا دیا جائے ایک ہی شہر میں کئی مساجد، گرد وارے اور گرجا گھر ہونے کے باوجود مذہب کے نام پر قتل وغا رت نہیں کیا جاتا۔ لوگ جوش اورجنون کے بجائے ہوش سے کام لیتے ہیں۔
جرم کی سزا کے لئے عدالتیں ہیں جہاں انصاف بکاؤ نہیں ہے، بلکہ امیر غریب سب کے لئے یکساں ہے۔ کوئی امیر لائن کو چیر کر پہلے نمبر پر کھڑا نہیں ہوتا۔ گلیوں اور بازاروں میں کسی بےگناہ یا کمزور کو فرد جرم عائد کرکے موت کے گھاٹ نہیں اتارا جاتا۔ نہ ہی عزت اور غیرت کے نام پر انسانی خون سے ہاتھ رنگے جاتے ہیں۔ بچے اپنا بستہ خود اٹھاتے ہیں نوکر یا ڈرائیور نہیں۔ تاکہ وہ مستقبل میں اپنا بوجھ بھی خود اٹھا سکیں۔ وہاں سب لوگ اپنے روزمرہ کے چھوٹے موٹے تمام کام خود اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔ وہاں ریاٹائرڈ لائف کے لئے لوگ پہلے سے سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ کئی بوڑھے تو اپنی مرضی سے اولڈ ہوم کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ وہ تنہائی سے بچ سکیں۔ والدین اپنے بچوں کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے پروفیشن چنیں۔ تاکہ وہ اس میں کامیاب بھی ہو سکیں۔
سچ تو یہ پے کہ کبھی تو یوں لگتا ہے کہ ہمارے دین اسلام کی اساس اور اصل روح کو ہم نے فراموش کر دیا ہے۔ کسی ہمسائے کو تکلیف یا مصیبت میں دیکھ کر ہم آگے نہیں بڑھتے۔ اگر کسی کا گھر ٹوٹ رہا ہو تو ہم مصالحتی کردار ادا کرنے کے بجائے یا تو خاموش رہتے ہیں یا پھر جلتی پر تیل ڈالنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ بچوں کی غلطیوں پر ان کو معاف کرنے کے بجائے ان سے عمر بھر کے لئے ناطہ توڑ لیتے ہیں۔ ہم زندہ انسانوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور لاشوں کو اہمیت دیتے ہیں۔
زند گی میں یکسر نظر انداز یا فراموش لوگوں کو قبر میں اتارنے کے بعد ان پر کالم لکھے جاتے ہیں۔ ان کی خوبیوں کو یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے اعزاز میں تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کئی فنکاروں کے مایوسی، کسمپرسی اور بے یارومدگار دنیا سے کوچ کرنے کے بعد ان کے نام پر ٹرسٹ بنائے جاتے ہیں اور ایوارڈ کا اجرا کیا جاتا ہے۔ لیکن ان کی زندگی میں ان کے حالات سے آگاہ ہونے کے باوجود چشم پوشی کی جاتی ہے۔ سچ پوچھو تو کبھی کبھی اس تماش بین رویے پر بہت دکھ ہوتا ہے۔ لیکن دنیا آج بھی بے غرض اور درد دل رکھنے والے افراد سے خالی نہیں ہوئی۔ ہمیں اس خود غرض اور تماش بین رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

