Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Shukr Guzari

Shukr Guzari

شکر گزاری

زندگی میں ہم کبھی شکر گزاری والا سبق بھول جاتے ہیں۔ لیکن جہاں کوئی تکلیف یا ناہمواری آتی ہے، فورا اللہ تعالی سے گلے شکوے شروع کر دیتے ہیں۔ کبھی اپنے گرد لوگوں، دوستوں اورعزیزوں سے گلہ پالنے لگتے ہیں۔ بہت سے لوگ قدرت سے بھی شاکی رہتے ہیں۔ اپنے اردگرد کی خوبصورتی کو بھی محسوس نہیں کر سکتے۔ کوئی بھی موسم ان کو خوشی نہیں دیتا۔ کبھی گرمی کی شکایت تو کبھی سردی سے ناراضگی۔ بہار اور خزاں میں بھی کوئی جواز ڈھونڈھ ہی لیتے ہیں۔ اس کے برعکس شکر گزار لوگ ہر موسم کو مسکرا کر جھیل جاتے ہیں۔

شکایت یا گلہ کرنا انسانی فطرت میں شامل ہے۔ کبھی ہم حقیقت اور توقعات میں بہت زیادہ فاصلہ دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں۔ اور شکایت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور یوں بھی گلہ کرنا نسبتا آسان ہوتا ہے۔ کسی د وست یا اپنے کی شکایت کو دل میں مت رکھیں، یاد رہے کہ گلہ بھی اپنوں سے ہی کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کسی کے لئے تعریفی کلمات کہنا یا شکریہ ادا کرنا بہت مشکل کام ہے۔ لیکن گلے شکوے یا بغض کو سنبھال کر رکھنے میں ہم اپنی مثال نہیں رکھتے۔ بعض اوقات تو بری اور تلخ باتوں کی تاریخ، موقع اور سال بھی یاد رکھا جاتا ہے۔ اور پھر مناسب موقع آنے پر یا خود ہی موقع پیدا کر کے اس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ مرحومین کے جا نے کے بعد بھی ہم ان کے ذکر پر کئی گلے شکوے اور دو چار بری باتیں ان کے کھاتے میں ڈال ہی دیتے ہیں۔ جب کہ وہ اپنی صفائی دینے کے حق سے بھی محروم ہو چکے ہوتے ہیں۔ لیکن بات اگر کسی تعزیتی سیمنار یا تقریب کی ہو تو ہم بہترین تعریفی تقاریر پیش کر کے داد ضرور وصول کرتے ہیں۔

شکر گزاری کے اظہار کے طور پر تحفہ دینا ایک خوبصورت روایت ہے۔ کسی سے ملنے والے تحفہ پر اس کا شکریہ ادا کریں۔ اسے دینے والے کے سامنے استعمال کرکےappreciate کریں۔ دیکھا جاتا ہے کہ خواتین اس معاملے میں میں کافی حساس ہوتی ہیں۔ خواہ گھر اور جائیداد کے مالکانہ حقوق ہی ان کے نام کیوں نہ ہوں، کسی خاص دن یا موقع پر شوہر کی طرف سے کارڈ یا تحفہ ان کے لئے خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اگر شوہر کی طرف سے اس خاص دن کو بھولنے کی غلطی سرزد ہو جائے تو گھر میں ایک سرد جنگ کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ دراصل اس ضمن میں میاں بیوی دونو ں ہی یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔

کسی اہم دن پر دونوں کے درمیان کارڈز یا تحائف کا تبادلہ نہ صرف گھر کی فضا کو خوشگوار بنا دیتا ہے، بلکہ ایک دوسرے کی طرف شکر گذاری کا ثبوت بھی ہے۔ اگر والدین اپنے گھر میں شکر گذاری کی فضا قائم رکھیں گے تو اس کا اثر بچوں پر بھی ہو گا۔ آج کل نوجوان نسل میں appreciation کا عنصر کم ہوتا جا رہا ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ جو چیز آسانی سے اس کی دسترس میں آجائے وہ اس کے لئے شکر گزار نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس محنت اور تگ ودو سے حا صل کی ہوئی چیز کی وہ قدر بھی کرتا ہے اور اسے سنبھال کر بھی رکھتا ہے۔ کبھی ہمیں اپنے اردگرد کی چیزوں اور رشتوں کی قدر اس وقت تک نہیں ہوتی، جب تک کہ ہم انہیں کھو نہیں دیتے۔ لیکن اس وقت تک ہمارے پاس صرف پچھتاوے رہ جاتے ہیں۔ isabel allende نے کہا تھا

We only appreciate what we have, when we lose it

بحثیت ادنی انسان آج ہم جن باتوں پر رنجیدہ ہوتے ہیں یا شکایت کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کبھی آنے والے وقت میں انہیں پر ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کر رہے ہو ں،کہ جو ہوا وہ ہمارے حق میں بہتر ہی تھا۔ خدا کے فیصلے انسانی عقل وفہم سے بالا ترہیں ہماری زندگی میں اچھے، برے پل آتے جاتے ہیں۔ بیماری یا تکلیف میں ہم صبر کا دامن چھوڑنے لگتے ہیں اور میں ہی کیوں؟ کا سوال سر اٹھانے لگتا ہے۔ کسی بھی ایک برے دن میں آپ کی مسکراہٹ اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ آپ اس پل بھی اپنی زندگی میں ان اچھی چیزوں کے لئے اللہ تعالی کے شکر گزار ہیں جو آ پ کے پاس موجود ہیں۔ اس لئے کسی کی تلخ یا کڑوی بات کو بھی مسکراہٹ میں سمو لینا اعلی ظرفی اور شکر گزاری کی علامت ہے۔ وہ لوگ بہت خوش نصیب ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالی شکر کی نعمت سے نوازتے ہیں۔ خود کو ملنے والے ان آتی جاتی سانسوں کا شکر کیجئے۔ اپنی صحت اور تندرستی کا شکر کیجئے۔ اپنے اطراف موجود لوگوں کیلئے شکر کریں۔ اپنے کھانے کی میز کو دیکھں اور اس پر شکرکریں کہ آپ کھا سکتے ہیں۔ آپ صبح اٹھ کر کام پر جا رہے ہیں اس پر شکر کیجئے۔ ہو سکتا ہے کل آپ کے پاس کام نہ رہے یا آ پ کام کرنے کے قابل نہ رہیں۔

اللہ تعالٰی کا اپنے دل، زبان اور عمل سےشکر ادا کریں۔ اس کے اعترف کے طور پر اس کو با نٹنے کی بھرپور کو شش کریں، جو اس نے آپ کو عطا کیا ہو۔ وہ اس کا کرم ہو، مال ودولت ہو، علم و دانش ہو یا پھر کسی کے لئے کچھ وقت ہی ہو۔ کسی دوست یا اپنےکے مشکل وقت میں اسے یہ یقین دلائیے، کہ آپ اس کے لئے موجود ہیں۔ بات کریں یا اپنا کچھ وقت دیں۔ اپنی strength کو دوسروں سے شئیر کریں۔ بچوں میں یہ خوبی عروج پر ہوتی ہے۔ لیکن کبھی وقت کے ساتھ ہماری اس خوبی پر خود غرضی اور' میں ' غالب آ جاتی ہے۔ counting my blessings کا سبق بچے تو یاد رکھتے ہیں، ہم بڑے اکثر بھول جاتے ہیں۔

وہ عطا کرے تو شکر اس کا، وہ نہ دے تو ملال نہیں

میرے رب کے فیصلے کمال ہیں، ان فیصلوں میں زوال نہیں

Check Also

Holocaust

By Mubashir Ali Zaidi