Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Retirement

Retirement

ریٹائرمنٹ

صبح اٹھ کرکام یا ملازمت پر جاتے ہوئے ہم میں سے کتنے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ایک دن ایسا بھی ہو گا جس کا ہر لمحہ وہ اپنی مرضی سے گزاریں گے۔ زندگی کو اپنے انداز سے جئیں گے؟ ملازمت ہو یا کاروبار، کبھی تو ایک سی لگی بندھی روٹین سے اکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔ اور ریٹائر منٹ کا خیال تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند دل و دماغ کو ترو تازہ کرنےلگتا ہے۔ کہ جب وقت ہماری گرفت میں ہو گا اور ہم بھی ذمہ داریوں کے بوجھ سے آزاد من چاہی زندگی بسر کریں گے۔

مختلف ممالک میں ریٹا ئرمنٹ کی عمر قدرے مختلف ہے۔ ہم اسے ساٹھ سال سے بعد کی عمر شمار کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ عمر کا تصور بھی وقت کے ساتھ کافی بدل چکا ہے۔ آج سے تقریبا ایک صدی پہلے پچاس سالہ افراد کو بوڑھا خیال جاتا تھا لیکن آج یہ سوچ اور تصور بدل چکا ہے۔

ریٹائرمنٹ کو ایکسائٹمنٹ سمجھنے والے جب عملی طور پر اس میں قدم رکھتے ہیں توسب کچھ ان کی توقع کے مطابق نہیں ہوتا۔ ریٹائرمنٹ کے قریب جانے تک جوانی کی برق رفتاری کے برعکس کبھی چال میں لڑکھڑا ہٹ آجاتی ہے تو کبھی پرانے نام پتے بھولنے لگتے ہیں۔ کئی چھوٹی موٹی بیماریوں سے بھی واسطہ پڑ جاتا ہے جن کو ڈاکٹر صاحبان یہ کہہ کر تسلی دے دیتے ہیں کہ خاص پریشانی کی بات نہیں، بڑھتی عمر کے ساتھ ایسے مسا ئل ہو جاتے ہیں۔

آخر کار وہ دن بھی آپہنچتا ہے جس کی تمنا بہت سالوں سےتھی۔ الوداعی تقریبات کا اہتمام ہونے لگتا ہے۔ تعریفی و توصیفی کلمات سننے کو ملتے ہیں۔ آپ کی خدمات اور محنت کو سراہا جاتا ہے اور ان کے اعتراف کے طور پر کئی اسناد و اعزازات بھی آپ کے حصے میں آتے ہیں۔ کولیگز کے ساتھ مستقبل میں ان ٹچ رہنے، اور ملتے رہنے کے وعدے اور پلان کیے جاتے ہیں۔ اور آپ اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔ کل سے گھڑی پر الارم نہیں بجے گا۔

ریٹائر منٹ سے پہلے کوئی آپ کا باس تھا، اب اپنے معمولات زندگی کے نگران آپ خود ہوں گے۔ جب دل چاہا اٹھے، جب جی مانا سو گئے۔ یہ بھی تو بادشاہی ہی ہے۔ عزیزواقارب اور دوست احباب کہہ رہے ہیں، جی آپ تو بس آرام کیجئے، بہت کام کر لیا۔ کچھ دن، ہفتے، مہینے گزر چکے ہیں۔ ارے بھئی یہ کیا؟ مجھے بوریت کیوں محسوس ہو رہی ہے۔ زندگی ایک دم خالی اور پھیکی کیوں لگنے لگی ہے؟ میں نے ایسا تو قطعا نہیں سوچا تھا۔ ہر روز واک پہ جانے کا پلان بنتا ہے جو کبھی پورا نہیں ہو پاتا۔

دن کا بیشتر حصہ یونہی بیکار ہی چلا جاتا ہے۔ پرانے دوستوں سے بھی ملنے کو کچھ خاص جی نہیں چاہتا۔ اس سے تو کام ہی اچھا تھا، کم ازکم دن گزرنے کا تو پتہ بھی نہیں چلتا تھا۔ رات کو دماغی تھکن کی وجہ سے نیند بھی اچھی آتی تھی۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ ایک میں ہی ریٹائرڈ اور فارغ ہوں باقی سب دنیا تو ازحد مصروف ہے۔ کچھ پرانے دوستوں سے ملاقات ہوئی تو وہ بھی ملتی جلتی صورتحال سے دو چار لگے۔ ان سے مل کر پرانے دنوں کو یاد کرکے بہت اچھا لگتا ہے، جب سانس لینے کے فرصت نہ تھی۔ ایک منٹ ذرا رکیے، غلطی کہاں پر ہے؟

کیا ہم حال میں زندہ رہنے کے بجائے ماضی یا مستقبل میں جیتے ہیں؟ کیا ریٹائرمنٹ کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کو بے مقصد گزارا جائے؟ اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے صبح سے شام اور، رات سے دن ہونے کا انتظار کیا جائے؟ تو اس کا جواب ہے قطعا نہیں۔ ریٹائر منٹ ایک طرح سے آپ کی زندگی کا وہ حصہ ہے جو آپ خود پلان کرتے ہیں۔

ساٹھ یا پینسٹھ سال کی عمر میں ریٹائر ہونے والے بہت سے افراد ذہنی اور جسمانی طور پر اس اہل ہوتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے مزید کام کر سکیں۔ وہ اپنے اوقات کار میں کمی کر سکتے ہیں یا اپنی ملازمت بدل سکتے ہیں۔ کوئی بھی ایسا مشغلہ اختیار کر سکتے ہیں جس میں وہ ایکٹو اورخوش رہیں۔ بغیر کسی سوچ اور پلان کے ریٹائر منٹ ذہنی اور جسمانی بیماریوں کو جنم دیتی ہے۔

ریٹائرمنٹ کا ایک مسئلہ تنہائی بھی ہے۔ کیوں کہ اس مرحلے تک بچے اپنے گھروں میں جا چکے ہوتے ہیں یا پھر فکر معاش اور کام انہیں اتنا مصروف رکھتا ہے کہ ساتھ رہتے ہوئے بھی آپ کو کمپنی یا وقت نہیں دے پاتے۔ جب انسان کسی اونچے اور اعلی عہدے پر فائز ہوتا ہے تو کبھی طاقت کا نشہ اس کے اندر تکبر اور گھمنڈ کا بیج بو دیتا ہے۔ اسے یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ سب کچھ ہمیشہ یوں ہی قائم رہے گا۔ اسی نشے میں چور حضرت انسان اخلاق اور عجز و انکساری سے یکسر غافل ہو جاتا ہے۔

وہ لوگ جو اس کے عہدے کے دباؤ اورخوف میں، یا اپنی ضرورت کے تحت اس کے گرد منڈلانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہی لوگ یا ان کے ماتحت اس بندھن سے آزاد ہو جاتے ہیں اور پھر ان اخلاق و کردار سے بے بہرہ ریٹائرڈ عہدیداران کے عالیشان اور سجے سجائے ڈرائنگ روم ویرانی کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس کے بر عکس اخلاق ومروت والے صاحب کردار لوگوں سے سبھی ملنا پسند کرتے ہیں اور ان کے گرد لوگوں کا ہجوم نظر آتا ہے، جو ان کی زندگی کے تجربات کو سننا اوران سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں۔

ریٹائرمنٹ کے حوالے سے ایک اور بات بہت اہم اور قابل ذکر ہے کہ اپنے مالی معاملات کو عقل مندی سے سنبھالا جائے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ تمام عمر بچوں کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے بعد بھی بچوں سے مدد مانگنا بہت مشکل کام ہے۔ اپنے بڑھاپے کے لئے کچھ بچا کر رکھنا ایک دانشمندانہ حکمت عملی ہے، تاکہ آپ مالی مشکلات کا شکار نہ ہوں۔

ہمارے ہی ارد گرد ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں، جہاں اولاد والدین کی دی گئی قربانیوں کو یکسر فراموش کر دیتی ہے۔ خالی ہاتھوں اور سوالیہ نشان کے ساتھ ماں باپ یا ان میں سے کوئی ایک قسمت اور حالات کی ستم ظریفی کا شکار نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس کہیں نیک اور صالح اولاد والدین کی خدمت میں دن رات ایک کرتی نظر آتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بڑھاپا بذات خود ایک آزمائش ہے، اور اگر اس میں مالی دشواریاں بھی ہوں تو یہ آزمائش اور بھی کٹھن ہو جاتی ہے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد انسان زیادہ سے زیادہ وقت اپنی فیملی کو دینا چاہتا ہے۔ کیوں کہ اس کے اندر کہیں نہ کہیں یہ guilt موجود رہتا ہے کہ کام کی زیادتی اور ذمہ داریوں کی وجہ سے وہ اپنی فیملی کو بھرپور وقت فراہم نہیں کر پایا۔ یوں تو کہاوت ہے کہ جس دن ایک شوہر ریٹائر ہوتا ہے، اسی دن اسے اس کی بیوی کی فل ٹائم ملازمت شروع ہو جاتی ہے۔

گزرتے وقت کے ساتھ کچھ لوگوں کے مزاج میں چڑچڑا پن اور بیزاری نمایاں ہونے لگتی ہے۔ یعنی یوں کہیے کہ زندگی کے خوبصورت سال تو کام کی جھک جھک میں گزر گئے اور اب جب وقت ہی وقت ہے تو مزاج کی تلخی اور لہجوں کی کڑواہٹ سے زندگی کے سارے رنگ ہی پھیکے پڑ گئے۔ جب کہ یہ صورتحال بھی فریقین کے اپنے اختیار میں ہی ہے۔

میں نے کئی لوگوں کو دیکھا جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد دلچسپ مشاغل اختیار کیے۔ جیسے کہ معیاری اور اچھی کتب کا مطالعہ، پینٹگز بنانا، کھانے پکانے میں دلچسپی، کسی بھی طرح کا وولینٹر کام کرنا جیسے خلق خدا کی خدمت، باغبانی میں وقت گزارنا، گولف کھیلنا یا سیاحت پہ جانا وغیرہ۔ کیوں کہ آپ کا مقصد فیملی کے ساتھ کوالٹی ٹائم گزارنا ہے۔ بے مقصد نوک جھونک اور ایک دوسرے کی روٹین میں بے جا مداخلت سے ازدواجی زندگی بوجھل ہونے لگتی ہے۔

میری ایک عزیز دوست کا کہنا ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر کے نزدیک آتے آتے وہ اور ان کے شوہر غیر اہم اور معمولی باتوں پر تکرار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر میں نے اخبار پہلے پڑھنا ہے؟ یا آج چا ئےمیں کچھ دیر کیوں ہو گئی؟ وغیرہ۔ اسی طرح ریٹائر منٹ کے بعد اپنے بچوں یا پھر ان کے بچوں کے ساتھ ایک خوشگوار زندگی گزارنا بھی ایک فن ہے، جسے باقاعدہ سیکھنے کے ضرورت ہے۔

پہلا اصول یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کا مطلب نا اہلی یا معذوری ہر گز نہیں ہے۔ آپ دماغی اور جسمانی طور پرمتحرک رہیں گےتو آپ کے ارد گرد لوگ بھی خوش رہیں گے۔ دانستہ طور پر اور بلا عذر کسی پر بھی اپنا بوجھ مت ڈالیں خواہ وہ آپ کا لائف پارٹنر ہو یا آپ کے بچے ہوں۔ سب سے اچھی اور میٹھی باتیں کریں، کسی ناگوار بات کو بھی درگزر کرنے کا حوصلہ رکھیں۔ اسی طرح ریٹائرڈ افراد کے اردگرد فیملی کے لوگوں کا بھی فرض ہے کہ وہ ان کو محسوس کروائیں کہ اب بھی سب کو ان کی ضرورت ہے اور سبھی ان سے پیار کرتے ہیں۔ اور بیماری یا معذوری کی صورت میں ان کی دیکھ بھال کریں۔

ریٹائرمنٹ کے حوالے سے کی جانے والی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ جو لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد کسی بھی طرح کا کوئی کام یا مشغلہ اپناتے ہیں کیوں کہ وہ کرنا چاہتے ہیں نہ کہ انہیں کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ زیادہ خوش اور صحت مند رہتے ہیں۔ اس طرح وہ بیرونی دنیا سے بھی جڑے رہتے ہیں اور ڈیپریشن کا شکار نہیں ہوتے۔ اپنی ریٹائر منٹ کو بامقصد اور فعال بنائیے اور خوش رہیے۔ بقول منیر نیازی

محفل آرا تھے مگر پھر کم نما ہوتے گئے

دیکھے ہی دیکھتے ہم کیا سے کیا ہوتے گئے

وقت کس تیزی سے گزرا روز مرہ میں منیر

آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے

Check Also

Roos, Nuclear Doctrine Aur Teesri Aalmi Jang

By Muhammad Aamir Iqbal