Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Parwarish Se Parwaz Tak

Parwarish Se Parwaz Tak

پرورش سے پرواز تک

بابا! مجھے اپنے سوٹ کے ساتھ میچنگ جوتے چاہیے، میں آپ کے پہن کر دیکھ لوں؟ ہاں بیٹا ضرور لیکن میرے جوتے آپ کو فٹ نہیں آئیں گے۔ باپ نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔ بابا دیکھیں تو کیسے لگ رہے ہیں؟ جوتے پوری طرح سے فٹ تھے۔ بیٹا جا چکا تھا، لیکن باپ اس وقت کی کھوج میں تھا، جو نہ جانے کب بند مٹھی سے ریت کی طرح پھسل گیا۔۔

اماں میں آپ کا دوپٹہ اوڑھ لوں آج کل پھر سے اس کا بہت رواج ہے۔ ہاں بیٹا ضرور، اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے؟ اماں دیکھیں نا کیسا لگ رہا ہے، بہت پیارا بیٹا، ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب یہی دوپٹہ اوڑھ کر کسی تقریب میں گئی تھی اور آپ نے اپنے ننھے ہاتھوں سے میری انگلی تھام رکھی تھی۔۔

ماں باپ کی چھاؤں میں پھلنے پھولنے والے ننھے منے پودے کب بڑے ہو جاتے ہیں، پتہ ہی نہیں چلتا۔ وہی خواب جو ہم ان کے لئے دیکھتے ہیں، جب وہ ان کو پنکھ لگا کر اڑنا چاہتے ہیں تو ہم ان کی پرواز سے خوش ہونے کے ساتھ ساتھ ڈرتے بھی ہیں۔

کل تک ہمارا جو بچہ اپنے ہر سوال کا جواب ہم سے چاہتا تھا، آج وہ خود تلاش کرنا چاہتا ہے۔ وہ بے لوث محبت جو ہمیں ان کے اٹھائے ہوئے ہر ننھے قدم کا محافظ بناتی تھی، آج ہم سے متقاضی ہے کہ ہم اپنے بچے کی انفرادی شخصیت کو پہچانیں۔ ہمیں اسے ایک مضبوط، خود مختار فرد واحد کے طور پر پھلتے پھولتے دیکھنا ہے۔ وہ وقت، محبت، توجہ اور پیار جو ہم نے بحثیت والدین بچوں کو دیا، وہ ان کا بنیادی حق تھا، قرض نہیں، جسے انہیں چکانا ہے۔ کبھی ہم اس قرض کو سود کے ساتھ وصول کرنا چاہتے ہیں اور تھوڑے جذباتی اور خود غرض بھی ہوجاتے ہیں۔ اگر بچے والدین کے بڑھاپے میں ان کا خیال رکھتے ہیں تو یہ والدین کی خوش نصیبی اور اولاد کی سعادت مندی ہے۔ یہ ایک تلخ سچائی اور حقیقت ہے کہ والدین کی غیر مشروط اور انمول محبت کے باوجود زندگی میں ایسے کئی مراحل اور مقامات آ جاتے ہیں، کہ ہمیں اپنا دل بہت بڑا اور مضبوط کرنا پڑتا ہے۔

ان کے بڑا یا بالغ ہو جانے پر ہمیں اپنی شخصیت میں کچھ تبد یلیاں لانی پڑتی ہیں۔ یعنی ماں باپ کی ریا ضت اور جدوجہد کبھی ختم نہیں ہوتی۔ بچوں کے مستقبل کو سنوارتے ہوئے خود کو یکسر فراموش کر دینا ایسی غلطی ہے جس کا خمیازہ بھگتتے افراد ہمیں اپنے اطراف نظر آتے ہیں۔ ان کی خالی آنکھوں میں کئی ایسے سوال ہیں جن کا جواب اب کسی کے پاس نہیں۔ کچھ کا آخری ٹھکانہ کوئی اولڈ ہوم ہے اور کچھ کہنے کو تو اپنے بچوں یا کسی ایک بچے کے ساتھ ہیں مگرسچ تو یہ ہے کے ان کے کمزور اور نحیف ہاتھوں کو محبت کی حرارت یا لمس دینے والا کوئی نہیں۔

تختی چاک، کاپی پنسل، کتاب کے بعد یہ جنریشن جدید ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ اور گوگل کی وجہ سے بہت باخبر اور فاسٹ فارورڈ ہے دنیا جیسے انکی ہتھیلی میں سمٹ چکی ہے۔ ایموشنل کے بجائے پریکٹکل ہونے پر یقین رکھتی ہے۔ روایات کو اندھا دھند ماننے کے بجائے دلیل مانگتی ہے۔ گفتگو اور بات چیت کے بجائے وائی فائی کا دور آچکا ہے۔ جذبات و احساسات کے اظہار کی جگہ ایموجیز نے لے لی ہے۔ یہ جنریشن زندگی کو مشکل بنانے کے بجائے آسان بنانا جانتی ہے۔ سمجھوتوں اور رشتوں کی سولی چڑھنے کے بجائے آنکھیں اور کان کھلے رکھ کر عزت نفس کے ساتھ جینا چاہتی ہے۔

وہی بچے جنہیں ہم حکم دیا کرتے تھے، اب ہمیں ان کی بات کو نہ صرف سننا ہے، بلکہ سمجھنا بھی ہے۔ وہی بچے جن کی ہنسی، لڑائی جھگڑے، مار کٹائی اور شرارتوں سے گھر میں ایک طوفان کا سماں ہوتا تھا۔ اب بڑے ہو رہے ہیں یا ہو چکے ہیں۔ ان کی اپنی شخصیت اور مصروفیت ہے۔ اب ہماری اصل محبت ان کو زبردستی اپنے پاس بٹھانے میں نہیں، بلکہ ان کی خوشی میں خوش ہونے اور ان کی ترقی اور سلامتی کی دعا کرنے میں ہے۔ ان کے ساتھ کوالٹی ٹائم بتائیں، لیکن اس طرح کہ انہیں گھٹن کا احساس نہ ہو۔ ہمارا بچہ ہمارا عکس ہی ہے جس میں اس کے دوستوں اور بیرونی دنیا کا رنگ بھی شامل ہے۔ اپنے لئے عزت اور وقار کی حدود خود متعین کریں اور اس طرح بچوں کی عزت نفس کا خیال بھی رکھیں۔ اپنی زندگی میں کوئی مثبت مشغلہ یا شوق ہمیشہ شامل رکھیں، جس سے آپ کو بوریت یا بے مقصد فراغت کا احساس نہ ہو۔ وقت ملنے پراپنے پرانے دوستوں سے ملتے رہیے۔

بچے خواہ کتنے ہی بڑے ہو جائیں، انہیں والدین کی محبت اور رہنمائی کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ سو ذہن میں منفی خیالات کو جگہ نہ دیں ورنہ یہ منفعیت آپ کے رویوں اور قول وفعل پر بھی اثر انداز ہوگی۔ وقت کے ساتھ ہمارے روپ بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی ہمیں ان کے محافظ، کبھی دوست، ہم راز اور کبھی ان کے ناصح یا خیر خواہ کا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ بچوں سے رشتے کی تازگی سختی، مار پیٹ، خوف یا تحکم سے نہیں بلکہ محبت، نرمی، گفتگو اور دعا سے برقرار رہتی ہے، اسے ہرا بھرا رکھیں۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz