Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Khule Darwaze, Khule Dil

Khule Darwaze, Khule Dil

کھلے دروازے، کھلے دل

کچھ دہائیاں پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں۔ دن کے کسی بھی پہر بغیر اطلاع اور فون دروازے پر ہلکی سی دستک یا گھنٹی اور کسی مہمان کی آمد! میزبان کا پرمسرت چہرے سے استقبال کرنا، تب مہمان کی آمد کا وقت اور دن متعین نہیں ہوتا تھا۔ گھر کے بیرونی دروازے پر پہنچ کر میزبان خوشی سے اپنے مہمان یا مہمانوں کا استقبال کرتے۔ موسم کی مناسبت سے ان کی نشست کا انتظام کیا جاتا۔ سادہ پانی یا موسم اور ان کے مزاج کے مطابق، ٹھنڈا یا گرم مشروب تیار کیا جاتا۔ جس میں نمکین یا میٹھی لسی، ستو یا فالسے کا شربت، لیموں کی سکنجبین، املی اور آلو بخارے یا پھر بادام کا شربت قابل ذکر ہیں۔ سرد موسم میں ہر گھر کے رواج کے مطابق مکس یا الگ دم کی ہوئی چائے بنتی۔ حال احوال پوچھا اور بتایا جاتا۔

کھانے کی تیاری کا الگ سماں ہوتا تھا۔ گھریلو خواتین کبھی خود یا ملازمین کی مدد سے بہت خوشی سے کھانا تیار کرتیں۔ جس میں دیسی گھی، تازہ گوشت اور سبزیاں استعمال کی جاتیں۔ قصاب سے تازہ گوشت منگوایا جاتا، یا پھر گھر کی پالی ہوئی مرغیوں کا استعمال کیا جاتا۔ گھر میں تیار شدہ خالص مصالحے کھانوں کو ایک منفرد ذائقہ فراہم کرتے۔ لکڑیوں اور اپلوں کی تیز آگ پر جھٹ پٹ کھانا تیار ہو جاتا اور اس کی مہک پورے صحن میں پھیل جاتی۔ توے یا تنور پر گرم گرم چپاتیاں اتاری جاتیں، جن کی سوندھی خوشبو اور ان سے اٹھنے والی بھاپ سے بھوک کا احساس ہونے لگتا توے یا تنور کی روٹیوں کو رنگ برنگے یا پھر ہاتھ کی کڑھائی سے مزین دسترخوان میں لپیٹ کر چنگیر میں پیش کیا جاتا۔

کھانے میں حسب استطاعت گوشت، دال یا سبزی کا سالن اور چاول بنائے جاتے، جس کے ساتھ گھر کا دہی، سلاد، اچار، چٹنی، مربہ اور موسمی پھل بھی پیش کیے جاتے۔ ایک یا دو ڈشز سے بھر پور طریقے سے لطف اٹھا یا جاتا۔ قریبی مہمان تو وہیں چولہے کے آس پاس ہی میزبان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا لیتے۔ کئی گھروں میں چوکی، دری یا چٹائی یا تخت پوش کا استعمال ہوتا۔ میٹھے میں دیسی گھی یا مکھن میں بھنی ہوئی سویاں، دودھ سویاں، انڈوں یا سوجی کا حلوہ تقریباََ ہر گھر میں بنائے جاتے تھے۔ کیوں کہ یہ کم وقت میں تیار ہو جاتے۔ گھر کے بزرگ، جواں اور بچے سبھی اپنے مہمانوں کے ساتھ اس کھانے کا لطف اٹھاتے۔

کھانے کے بعد قہوہ، چائے وغیرہ کا دور چلتا اور مہمانوں کے ساتھ قصے، کہانیاں کی جاتیں۔ بجھارتیں ڈالی جاتیں، بچے بھی مہمان آنے کی خوشی میں دائیں بائیں گھومتے رہتے۔ مہمان کے رخصت ہونے پر میزبان اسے دروازے تک چھوڑنے آتے۔ ان اچھی روایات کے امین آج بھی ان کی پاسداری کرتے نظر آتے ہیں۔ خواہ وہ دیہاتوں، قصبوں سے بڑے شہروں، حتی کہ بیرون ملک منتقل ہو چکے ہوں۔ ان کے گھروں میں اسی گرم جوشی اور اپنائیت کا احساس ملتا ہے، جو انہوں نے اپنے بزرگوں سے وراثت میں پایا۔

وقت بدلا، زمانے کے انداز بدلے تو مہمانداری کی روایت میں بدلاؤ آیا۔ کہیں کہیں گھریلو خواتین کی جگہ ورکنگ ویمن نے لے لی، تو مہمانداری میں جھٹ پٹ بننے والوں یا پری میڈ کھانوں کا استعمال کیا جانے لگا۔ وقت بچانے کے لئے بازار کے مشروبات، پیکٹ کے مصالحوں کا استعمال اور ڈیپ فریزر میں کھانوں کو محفوظ کرنے کا رواج عام ہوا۔ وقت کی کمی اور مصروفیت کی وجہ سے سوشل لائف میں کمی آنے لگی اور اس کے ساتھ ہی دلوں کی محبت، اپنائیت اور خلوص کچھ سرد مہری میں بدلنے لگی۔

مکان کشادہ اور دل تنگ ہونے لگے۔ رویوں میں عدم برداشت کی وجہ سے میزبان اور مہمان میں فاصلہ بڑھنے لگا۔ خلوص اور محبت سے سجے سادہ سے دستر خوان دکھاوے، تصویروں اور وٹس ایپ کے سٹیٹس کی نظر ہونے لگے۔ میزبان کی محبت کو ڈشز کی تعداد سے ماپا جانے لگا۔ بڑوں اور بچوں کی پسند الگ ہونے لگی۔ چائنیز، فاسٹ فوڈ، پزا، برگر کی بھرمار نے ہمیں الجھا سا دیا۔ اسی تردد اور سوچ بچار میں ملنا ملانا بھی کم ہوگیا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ میانہ روی، بہتر منصوبہ بندی اور پلاننگ کے ساتھ اس مصروف زندگی میں بھی سوشل لائف ممکن ہے۔

مہمان کی آمد اور اس کے لئے گھر پر اہتمام ہماری ایک خوبصورت مشرقی روایت ہے۔ وہ گھر، اس کے مکین اور اس کے مہمان بہت خوش نصیب ہوتے ہیں جہاں کھلے دل اور کھلے دروازوں سے آنے والوں کا استقبال کیا جائے۔ ہر آنے والے شخص سے کوئی کہانی، کوئی خوشی یا کوئی یاد جڑی ہوتی ہے۔ میزبان اور مہمانوں کو ایک دوسرے کی آسانی کا خیال رکھنا چاہیے۔ اگر دونوں اطراف سے کھلے دل اور اپنائیت کا ثبوت دیا جائے، بناوٹ اور مصنوعی پن کے بجائے سادگی اور خلوص کو مد نظر رکھا جائے تو اس بھاگ دوڑ کی زندگی میں مہمان ایک رحمت ہے، زحمت نہیں۔۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali