Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. It Is Tough To Be Humble

It Is Tough To Be Humble

اٹس ٹف ٹو بی ہمبل

ہم سب میں انا ہے، لیکن ہم ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہمارا کردار اور رویہ ایک دوسرے سے الگ ہے۔ انا کے مثبت اور منفی، یعنی دو پہلو ہیں۔ مثبت انا کا مطلب ہے کہ ہم خودی اور عزت نفس کے ساتھ اپنے قول وفعل سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ پہنچا ئیں۔ خودی تو دراصل خود آگاہی اور ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ جبکہ منفی انا یعنی" میں " میں مبتلا افراد اپنے اردگرد لوگوں کی قطعا پرواہ نہیں کرتے۔ ہماری روزمرہ زندگی میں کئی ایسی مثالیں مشاہدہ میں آتی ہیں، جہاں ہم عجز وانکسا ری کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ گفتگو ہی کو لے لیں، بعض افراد دانستہ طور پر دوسروں کو بولنے کا موقع نہہیں دیتے۔

فہم وفراست اور علم پر عبور ایک طرف، لیکن محفل میں موجود تمام لوگوں کا شریک گفتگو ہونا اخلا قیا ت اور آداب محفل کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح اپنے علاوہ دوسروں کی رائے یا مشوروں کوسننا اور انہیں اہمیت دینا سمجھداری کا ثبوت ہے۔ دوسروں کے اچھے مشورے پر عمل کرنا ان کی صلاحیت کا اعتراف کرنے کے مترادف ہے۔ اپنے آپ کو عقل کل اور حرف آخر سمجھنے والے لوگ متکبر رویہ کے مالک ہوتے ہیں، اور ا پنے اطراف کے لوگوں میں گھٹن پیدا کرتے ہیں۔ محبت اور عاجزی ہمیں دینا سکھاتی ہے۔ جب کہ انا اگر حد سے گزر جائے تو سب کچھ تباہ کر دیتی ہے۔

کبھی ہم دوسروں کی مدد یا خوشی کے لئے کوئی چھوٹا سا کام کرتے ہوۓ بھی سو دفعہ سوچتے ہیں . ہم دوسروں پر نکتہ چینی کو اپنا فرض سمجھتے ہیں، لیکن اپنے احتساب سے گھبراتے ہیں۔ کبھی اپنی خوشیوں اور تکالیف کے لئے دوسروں کو ذمہ دار ٹھراتے ہیں۔ مشکل حالات میں اونچی آواز یا غصے کا اظہار کر کے خود کو مضبوط ظاہر کرنا تو ایک طرف، شادی یا غمی کے موقع پر بھی لڑائی جھگڑا دیکھنے کو ملتا ہے۔ کسی سے معا فی ما نگنے پر خود کو چھوٹا یا کمتر محسوس کرنا تو ایک طرف، بعض افراد کیلئے تو اپنی غلطی ماننا ہی امرمحال بن جاتا ہے۔ اکثر خاندانوں میں لین دین، رشتوں نا توں یا زبانی تلخ کلامی کی وجہ سے رنجشیں اور لڑائی جھگڑے جنم لیتے ہیں۔ فریقین اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ کوئی بھی معا فی مانگنے یا معاف کرنے کا روادار نہیں ہوتا اور یہ دشمنی اگلی نسل تک بھرپور طریقے سے نبھائی جاتی ہے۔ اگر کبھی اندر کا انسان صلح کرنا یا معافی مانگنا چاہے بھی، تو انا اس پر غالب آجاتی ہے۔

یہ سچ ہے کہ انسان کی بساط کچھ بھی نہیں اور انسانی علم ودانش، مال و املاک، حسن و جمال سب پاک پروردگار کی دین ہیں۔ کوشش اور محنت کے بغیر کامیابی کا حصول نا ممکن ہے۔ لیکن راستے اور وسیلے پیدا کرنے والی ذات صرف خداتعالی کی ہے۔ وہ صدق دل او رخلوص نیت سے کی جانے والی محنت کو کبھی رائیگاں نہیں کرتا، اور ہر قدم پر ہماری مدد اور معاونت فرماتا ہے۔ لیکن انسان کا اصل امتحان تو اپنی منزل پر پہنچنے کے بعد ہی شروع ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے کبھی اس کے اندر کا فرعون اتنا طاقتور ہوجاتا ہے کہ اس کے کردار کی تمام خوبیوں پر حاوی ہو جاۓ۔ اور یہی وہ کمزور لمحہ ہے جب ادنی سا حضرت انسان "میں " کی گرفت میں آجاتا ہے۔ جو اس کے قلب و ذہن کو مردہ اور اس کی شخصیت کی نشونما کو وہیں روک دیتی ہے۔" میں " کے حامل افراد یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ دنیا ان کے بغیر نہیں چلے گی اور جو خوبیاں یا صلاحیتیں ان میں ہیں، وہ کسی اور میں نہیں۔ یاد رہے جہاں سے "میں " کا آغاز ہوتا ہے وہیں سے عجز و انکسار ی، محبت اور در گذر کا اختتام ہوتا ہے۔" میں" اور خودپسندی کے شکار حضرت انسان کو اگر کوئی بیماری، مرض یا معمولی سا وائرس ہی گھیر لے تو چند ہی دنوں میں اس کی انا اور زعم کا پردہ اٹھ جاتا ہے، اور بے ثبات زندگی کی حقیقت پوری سچائ کے ساتھ اس کے سامنے آ موجود ہوتی ہے۔

ترا غرو ر مری عاجزی ہے کتنی دیر

بذات خود یہ حسیں زندگی ہے کتنی دیر

یہ رت جگے بھی وراثت ہیں اگلی نسلوں کو

ہر ا یک آنکھ یہاں جاگتی ہے کتنی دیر

عظیم اداکار دلیپ کمار سے متعلق ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ وہ کہتے ہیں اپنے کیرئر کے عروج پر ایک بار میں جہاز سے سفر کر رہا تھا۔ میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک بڑی عمر کا بندہ بیٹھا تھا، جس نے سادہ سی پینٹ اور شرٹ پہن رکھی تھی اور حلیے سے ہی مڈل کلاسیا مگر اچھا پڑھا لکھا شخص لگ رہا تھا۔ دوسرے مسافر تو مجھے پہچان رہے تھے اور سر گوشیاں کر رہے تھے۔ تاہم اس بندے کو تو جیسے میری موجودگی سے کوئی سروکار ہی نہ تھا۔ وہ اخبار پڑھ رہا تھا، کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا اور پھر وہ چائے پینے میں مشغول ہو گیا۔ اس سے گفتگو کی کوشش میں، میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اس شخص نے بھی جوابا مسکراہٹ دکھائی اور ہیلو کہا۔ ہماری گفتگو شروع ہو گئی اور میں نے مو ضوع سینما اور فلم کی طرف موڑ دیا اور اس سے پوچھا آپ فلمیں دیکھتے ہیں؟ اس شخص نے جواب دیا اوہ بہت کم، کئی سال پہلے ایک فلم دیکھی تھی۔

میں نے بتایا کہ میں فلم انڈسڑی میں کام کرتا ہوں۔ وہ شخص جوابا بولا، بہت خوب آپ کیا کرتے ہو؟ میں اداکار ہوں میں نے جواب دیا۔ اس شخص نے سر ہلایا، زبردست۔ اور بس گفتگو ختم ہو گئی۔ جب ہم لینڈ کر گئے تو میں نے اس سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا، آپ کے ساتھ سفر کرنا اچھا لگا ویسے میرا نام دلیپ کمار ہے۔ اس شخص نے مجھ سے مصافحہ کیا اور مسکرایا آپ کا شکریہ، آپ سے مل کر بہت خوش ہو ئی۔ میں جے۔ آر۔ ڈی۔ ٹاٹا۔ ہوں، ٹاٹا گروپ آف کیمپنیز کا چیرمین۔ دلیپ کمار کہتے ہیں کہ اس دن میں نے جانا، کہ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون ہیں؟ اور کتنے نامور ہیں؟ کچھ بھی ہو جائے آپ سے زیادہ کامیاب اور نامور لوگ دنیا میں موجو د رہیں گے۔ سو عاجزی ہی بہترین انتخاب ہے۔

انسان اپنی انا کے مادی دائروں میں بہت آسانی سے قید ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کی اصل پہچان اس کا کردار ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ جہا ں بہت سی اقدار بدل گئیں وہا ں انسانوں کو پرکھنے اور جانچنے کے پیمانے بھی بدل گئے۔ لیکن دنیا آج بھی صاحب کردار اور صاحب ایمان لوگوں سے خالی نہیں۔ انا انسان کو زوال کی طرف لے جاتی ہے۔" میں " ہماری زندگی کی بہت سی خوبصورت چیزوں اور رشتوں کو ہم سے چھین لیتی ہے۔ ہم اگر خود کو سب سے اچھا کوئ تحفہ دینا چاہتے ہیں تو آ یئے اپنی انا پر قابو پا کر اپنی ذات سے " میں " کو نکال دیں۔

ہزار طاقت، سو دلیلیں پھر بھی لہجے میں عاجزی ہو!

ادب کی لذت، دعا کی خوشبو بسا کے رکھنا کما ل یہ ہے

Check Also

Bhutto Ka Tara Maseeh

By Haider Javed Syed