Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Inteha Pasandi

Inteha Pasandi

انتہا پسندی

بس میں نےکہہ دیا، میں تو یہی سرخ کار لوں گا۔ بچے نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ لیکن بیٹا کوئی اور کھلونا لے لو، آپ کے پاس پہلے ہی بہت سی گاڑیاں ہیں؟ ماں نے سمجھانے کے انداز میں کہا، نہیں ماما مجھے یہی چاہیے، کچھ دیر کی تکرار کے بعد چھ سالہ بچہ اب دکان میں موجود دوسرے کھلونوں کی توڑ پھوڑ شروع کرچکا تھا۔ والدین اور دیگر افراد کی مداخت پر اسے روک دیا گیا۔ بچے کبھی کبھار ایسا کرتے ہی ہیں، لیکن اس قسم کا مستقل رویہ والدین کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔

امی، میں نے امتحانات کی تیاری میں دن رات ایک کیا ہے، مجھے ہرحال میں اول آنا ہے۔ لیکن بیٹا، ہوسکتا ہے باقی بچوں نے آپ سے بھی زیادہ محنت کی ہو، خدا تعالی پر بھروسہ رکھو وہ کسی کی محنت کوکبھی رائیگاں نہیں کرتے۔ جلد یا دیر سے محنت کا پھل ضرورملتا ہے۔

اماں، مجھے قطعی اچھا نہیں لگتا جب میری سب سے اچھی دوست باقی لڑکیوں سے بھی گپ شپ کرتی ہے۔ لیکن بیٹا یہ تو بہت غلط بات ہے۔ آپ اپنی دوست پر دوسروں سے بات چیت پر پابندی عائد نہیں کر سکتیں؟ نہیں اگر وہ باز نہ آئی تو میں اس سے اپنی دوستی ختم کر دوں گی۔

اگر مجھے یہ نوکری نہ ملی تو کہیں اور اپلائی نہیں کروں گا یا کروں گی۔ اگر میری اس لڑکی سے شادی نہ ہوئی تو میں اپنی جان دے دوں گا۔ میں اس لڑکے کے بغیر اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ اگر میری محبت مجھے نہ ملی تو میں پوری دنیا کو آگ لگا دوں گا اور دیکھتا ہوں کہ وہ کسی اور جگہ شادی کیسے کرتی ہے؟ تمہیں شادی کے بعد سو فیصد میری مرضی پر چلنا ہوگا؟

بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس حاکمانہ سوچ اور بیمار خیالات کے مالک لوگ موجود ہیں۔ کبھی ان بے بنیاد اور جذباتی فیصلوں کو بنیاد بنا کر خود اپنی جان لی جاتی ہے اور کبھی دوسرے کی۔ کبھی دوسرے کو مار کر خود کو ختم کرلیا جاتا ہے اور دونوں خاندانوں کو زندہ در گور چھوڑ دیا جاتا ہے۔ انسانی زندگی میں کسی بھی رشتے کے سانس لینے یا پھلنے پھولنے کی اصل بنیاد محبت ہے۔ لیکن محبت اگر دیوانگی اور جنون میں بدل جائے تو وہی رشتے گھٹن کا شکار ہو کر گلنے سڑنے اور مرنے لگتے ہیں۔ گن پوائنٹ پر نہ تو کسی سے دوستی ہو سکتی ہے اور نہ کسی کا دل جیتا جا سکتا ہے۔

وہ مذہب جو انسانیت اور امن کا علمبردار ہے، اسی کو بنیاد بنا کر اس کے نام پر مار پیٹ حتی کہ قتل تک کیے جاتے ہیں۔ ان پر تشدد کاروائیوں میں صف اول میں کھڑے لوگ دین اسلام کی حقیقی روح سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ عزت و غیرت کے حقیقی مفہوم سے نابلد لوگ اسی کے نام پر اپنے پیاروں کے خون سے ہاتھ رنگتے نظر آتے ہیں۔ دین اسلام میں اپنے اعتقاد اور اعمال میں انتہا پسندی کی آڑ میں قتل و غارت ممانعت کی گئی ہے۔ ہمارے لئے نبی کریم کی ہدایت ہے کہ لوگوں کو دین سے متنفر کرنے کا سبب نہ بنو۔

کسی بھی خوشی، غمی کے موقع پر یا کسی بھی تقریب کے انعقاد پر میانہ روی اختیار کرنا دانشمندی ہے۔ ہمارے ہاں اکثر خوشی کی تقاریب میں ہوائی فائرنگ انسانی جانوں کے زیاں کا کا رن بنتی ہے۔ ہم بحیثت قوم اپنے غصے کا اظہار مار دھاڑ، توڑ پھوڑ، جلاؤ، گھیراؤ کی صورت میں کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ مالی اور جانی نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔ کبھی ہم وقتی یا عارضی ناکامی کو پوری شدت سے خود پر طاری کرکے زندگی کی باقی نعمتوں کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔

دوستی، رشتہ داری، لین دین، حساب کتاب، ہرمعاشرتی پہلو میں میانہ روی ضروری ہے۔ اگر آپ اپنی زندگی میں کسی بھی شخص کو بے انتہا اہمیت دے رہے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ آپ اس کے لئے اتنے اہم نہ ہوں اور سچ جان کر آپ کو ذہنی اذیت کا سامنا ہو۔ دوسروں کو سو فیصد اپنی مرضی پر چلانا یا ان کا آپ کی رائے سے سو فیصد اتفاق کرنے کی توقع رکھنا بھی شدت پسندی کے زمرے میں آتا ہے۔

کوئی بھی انسان بطور شدت پسند پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی ایک دن یا رات میں بنتا ہے۔ پیدائش سے لے کر اس نہج تک پہنچنے میں کئی عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گھریلو یا معاشرتی سطح پر جسمانی اور ذہنی استحصال، دوستوں یا کلاس فیلوز کی طرف سے تضیحک یا طنز آمیز رویہ، بھوک، غربت و افلاس، بچپن میں عدم تحفظ اور خوف کا احساس، گھر میں لڑائی اور چیخ و پکار کی فضا، معاشرتی سطح پر ناانصافی، منفی اور شدت پسند لوگوں کی صحبت، کچھ عوامل کی مثالیں ہیں۔ والدین اور کسی حد تک اساتذہ اور ارد گرد کے لوگ ان رویوں کی پہچان اور ان کے علاج میں اہم کردار کر سکتے ہیں۔ صاحب استطاعت گھرانے سائیکالوجسٹ سے مشورہ لے سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ معاشرتی دباؤ کے پیش نظر اکثروالدین ہی ان مسائل کی پردہ پوشی کرتے نظر آتے ہیں۔ خواہ وہ آگے چل کر کسی تباہی کا پیش خیمہ ہی کیوں نہ ہوں۔

ہمارے دین اسلام کی روح اعتدال پسندی ہے انتہا پسندی نہیں۔ یہ امن اور سلامتی کا دین ہے، اشتعال انگیزی، نفرت، جنونیت اور قتل و غارت کا نہیں۔ اس کی اساس غور وفکر، تدبر، حقائق، دلائل اور انصاف پر ہے، نہ کہ کم علمی اور کم فہمی پر۔ بطور فرد واحد ہمیں ایسے گمراہ کن رویوں کی مذمت کرنی چاہیے اور ایسے شدت پسندوں پر نظر رکھنی چاہیے جو کل کو ہماری کمیونٹی کے لئے خطرہ ثابت ہوں۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail