1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Gilay Shikway

Gilay Shikway

گلے شکوے

ایک اچھی، مصروف اور متوازن زندگی گزارتے ہوئےکبھی کسی بات یا عمل کے ردعمل کے طور پر گلہ یا شکایت کر دینا بہت نارمل سی بات ہے۔ بعض اوقات گلہ یا شکایت کرنا شخصیت کا حصہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ حصہ پوری طرح آپ کو اپنے حصار میں جکڑنے لگے، تو سمجھ لیں کہ خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ یعنی بیماری نے جڑ پکڑ لی ہے اور اب اسے علاج کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمیں ادراک کیسے ہوگا؟ کہ گلہ اور شکایت ہماری شخصیت یا پھر زندگی پر اثر انداز ہو رہے ہیں؟ یا ہو چکے ہیں؟

کیا آپ کی زندگی میں مثبت سوچ اور پر امید رویہ کی کمی ہے؟ کیا آپ حال میں رہنے کے بجائے ماضی میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں؟ اور سوچتے ہیں کہ اگر میں نے فلاں وقت یہ فیصلہ کیا ہوتا، تو آج حالات یکسر مختلف ہوتے۔ جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ ماضی میں آپ کے کیے فیصلے اس وقت کے حالات و واقعات کے مطابق بہترین ہی تھے۔ اور آپ نے اپنی پوری فہم و فراست استعمال کی تھی۔ اس لئے ان کے نتائج کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے آگے بڑھ جانا ہی دانشمندی ہے۔

کیا آپ پرانی تکالیف یا تلخ یادوں کا ذکر کرکے رنجیدہ ہو جاتے ہیں؟ جب کہ آپ اس وقت الحمدللّٰہ خوش باش ہیں۔ کیا آپ کوئی بھی نیا کام شروع کرنے سے پہلے ہی مایوس کن نتائج کے بارے میں سوچ کر پریشان ہو جاتے ہیں؟ یا آپ محسوس کرنے لگے ہیں کہ زندگی کے بارے میں آپ کے گلے شکووں کی وجہ سے لوگ آپ کی کمپنی میں بیٹھ کر اچھا محسوس نہیں کرتے؟ اگر ان تمام سوالات کا جواب ہاں میں ہے، تو سمجھ لیں کہ آپ بھی ہمہ وقت گلہ شکوہ کرنے والے افراد میں شامل ہو چکے ہیں۔ اور ان شکوے شکایتوں سے عنقریب آپ کی دوستی اور زندگی کے خوبصورت رشتوں کے رنگ بہت پھیکے پڑنے والے ہیں۔

شکایت کو اپنے اندر رکھ کر پالنے اور پروان چڑھانے سے بہتر ہے کہ اسکا اظہار کر دیا جائے۔ یہی آپ کی صحت کے لئے اچھا ہے، کیوں کہ دوسرا شخص تو شاید اس بات سے بھی بے خبر ہو کہ آپ اس سے کسی بات پر ناراض یا برہم ہیں۔ کیوں کہ گلہ کی بنیاد کوئی غلط فہمی یا بد گمانی بھی تو ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ گلہ ہمیشہ اپنوں یا دوستوں ہی سے کیا جاتا ہے، تکلف یا خاموشی کے لئے تو اغیار ہوتے ہیں۔ بقول اختر شمار

میں تو اس واسطے چپ ہوں، کہ تماشا نہ بنے

تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں

کبھی بحثیت ادنی انسان اللہ تعالی سے بھی گلے شکوے کر بیٹھتے ہیں۔ شاید اس یقین اور مان پر کہ اس کی ذات نہایت غفور و رحیم ہے۔ ہم انسان خطا کار تو ہیں ہی، بس حساب کتاب میں مار کھا جاتے ہیں۔ جو دسترس میں ہے، اس کی قدر کے بجائے نہ جانے کس کی تلاش میں بھٹکتے رہتے ہیں؟ صدق دل اور پوری کوشش کے بعد جب خدا تعالی نواز دیں تو پھر گلہ کس بات کا؟ ہوسکتا ہے اس سے زیادہ ملتا تو شاید سنبھال ہی نہ پاتے۔ کبھی دوسرے کی بڑی تکلیف دیکھ کر اپنا دکھ چھوٹا لگنے لگتا ہے۔ بےشک رب کی رضا میں راضی رہنے میں ہی بھلائی ہے۔

سائنس کے مطابق آپ کے دماغ میں کافی لچک موجود ہوتی ہے اور وہ نئی اور اچھی عادات کو اپنا لیتا ہے۔ مستقل گلہ شکوہ کرنے والوں کے دماغ منفی عادات اور رویوں سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ اور دھیرے دھیرے ان کی مشکلات کو حل کرنے والی صلاحیت ماند پڑنے لگتی ہے۔ اور stress کا لیول بڑھنے لگتا ہے۔

کبھی ہم اپنے آپ کو پہچان نہیں پاتے یا اپنی صلاحیت اور قابلیت پر یقین کھو بیٹھتے ہیں۔ جن چھوٹے چھوٹے مسئلوں سے گھبرا کر ہم فورا شکایت کر بیٹھے، ان کو سلجھانے کی کوشش تو کی نہیں؟ خود کو کبھی آزمایا ہی نہیں۔ خود کو ایک موقع تو دے کر دیکھیں۔ ویسے بھی ہم آسانیاں ہی ڈھونڈتے ہیں اور، محنت سے جی چراتے ہیں۔ خواہ آپ کچھ بھی کہیں، سب سے آسان تو گلہ کرنا ہی ہے۔

جب کبھی آپ کے پاس بہت سے گلے شکوے جمع ہو جائیں، اور زندگی میں کڑواہٹ گھلنے لگے۔ تو کچھ وقت خود اپنے آپ کو دیں۔ ہوسکتا ہے، حل آپ ہی کے پاس موجود ہو۔ شاید وہ کسی روٹھے ہوئے کو منانے میں پہل کر لینے میں ہو، کبھی کسی نازک موقع پر کچھ پل کی خاموشی میں ہو، کبھی کسی کی معمولی سی غلطی کو ان دیکھا کر جانے میں ہو، کبھی یہ مان لینے میں ہو، کہ کچھ غلطی میری بھی تھی، کبھی مشینی زندگی سے چند لمحوں کی فراغت چرانے میں ہو، کبھی کچھ گھنٹوں کی اضافی نیند پانے میں ہو، کبھی قلب و ذہن میں ذرا سی کشادگی پیدا کرنے میں ہو، تو کبھی کسی اپنے کے لئے صرف تعریف اور شکریہ کے کچھ میٹھے بول، کہنے میں ہی ہو۔ اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتے رہیں اور اس کے لئے وجہ مت تلاش کریں۔ علامہ اقبال کہتے ہیں

تیری بندہ پروری سے میرے دن گزر رہے ہیں

نہ گلہ ہے دوستوں کا، نہ شکایت زمانہ

Check Also

Zuban e Haal Se Ye Lucknow Ki Khaak Kehti Hai

By Sanober Nazir