Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Chai Ke Rang

Chai Ke Rang

چائے کے رنگ

چائے کی پیالیوں کی کھنک اور ان سے اٹھنے والی مہک سے کون واقف نہیں؟ تقریباً ہر گھر میں صبح کا آغاز گرما گرم چائے کے کپ سے ہی کیا جاتا ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ کافی کی کئی اقسام نے جنم لیا، لیکن آج بھی چائے کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ کئی دہائیاں پہلے رنگ برنگی چائے کی پیالیاں، دودھ دان، شکر دان اور خوبصورت ٹی کوزی والی چائے بہت سوں کی یاداشت میں محفوظ ہوگی۔

چائے کے پودے کے اصل وطن کی بات کی جائے تو اس میں مشرقی چین، جنوب مشرقی چین، برما اور آسام سرفہرست ہیں۔ چائے کی مہک مسلمان سیاحوں کے ذریعے دوسرے ممالک تک پہنچی۔ چین میں چائے کی دریافت کے بارے میں تاریخ میں کئی شواہد موجود ہیں۔ جن میں سے کچھ کے مطابق یہ آج سے تقریبا پانچ ہزار سال پہلے کا واقعہ ہے، کہ چین کا شہنشاہ شنونگ جو کہ ماہر نباتات بھی تھا، اپنے باغ میں بیٹھا تھا۔ اس کی عادت تھی کہ وہ پینے کے لئے گرم پانی استعمال کرتا تھا۔ اس دن باغ سے ہوا کے ساتھ کچھ پتے اسکے گرم پانی میں آ گرے۔ اس پانی کی خوشبو اتنی اچھی تھی، کہ بادشاہ اسے پئے بغیر نہ رہ سکا۔ اسے پینے کے بعد بادشاہ کو تازگی کا احساس ہوا اور اس نے اسے "چہ" کا نام دیا۔ اس کے بعد چائے کی مہک بذریعہ تجارت یورپ اور پھر ساری دنیا میں پھیل گئی۔

چائے کے ساتھ ہمارے کئی معاشرتی رویے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ کئی ایسی اصطلاحات جو اب محاورہ بن چکی ہیں۔ مثلاً کب سے چائے کا کہہ رکھا ہے؟ چائے بن رہی ہے یا پائے؟ بزرگوں کے رویہ میں دیر سے چائے ملنے پر جھنجلاہٹ کا عنصر بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ کبھی چائے کو بغیر لوازمات کے پیش کیا جائے تو خالی چائے پلانے کا الزام بھی اپنے سر ہی سمجھیں۔ اور اس سے آپ کی سلیقہ مندی کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

کبھی خود سے ملاقات کا موڈ ہو، تو گرم بھاپ والی چائے کی پیالی کھٹی میٹھی یادوں کے کئی دریچے کھول دیتی ہے۔ مہمانوں یا دوستوں سے ملنے کا ارادہ ہو، تو جھٹ چائے کے دعوت دے ڈالیں۔ بڑے بڑے ایوانوں میں اہم اور تاریخی فیصلے بھی چائے کی پیالی پرہی کیے جاتے ہیں۔ کبھی تو چائے کی مٹھاس دو دلوں کے سنگم کا باعث بھی بن جاتی ہے۔ دو گھرانوں میں رشتے ناتے کی بات چل رہی ہو تو ملاقات کے لئے شام کی چائے بہترین ذریعہ ہے۔ دراصل اچھی چائے بنانا اور خلوص دل سے پلانا بھی ایک فن ہے، یعنی چائے ہے، تو زندگی میں رنگ بھی ہیں۔

تھکے ماندہ ذہنوں اور جسموں میں پھر سے تازگی بھرنے والی چائے ہی تو ہے۔ کسی سے دل کی بات کہنی ہو یا گلے شکوے کرنے کا من کرتا ہو، تو بس چائے بنائیے اور سب کہہ ڈا لیے۔ دل پر کسی بات کا بوجھ ہو یا کسی سےکوئی دکھ سکھ بانٹنا ہو تو تو گرم چائے کی بھاپ کی ساتھ بانٹ لیجئے۔ چائے سے محبت اور اس کی اہمیت کے پیش نظر پاکستان سمیت دنیا بھر میں پندرہ دسمبر کو چائے کے نام کر دیا گیا ہے۔ ترکی، برطانیہ اور آئر لینڈ وہ ممالک ہیں جہاں سب سے زیادہ چائے کے شوقین افراد موجود ہیں۔ ٹرکش چائے بھی ذائقہ کے حوالے سے لاجواب ہے، ارل گرے ذائقے اور طبی نقطہ نگاہ سے منفرد چائے ہے۔

کبھی کبھی تو فقط چائے کی پیالی سے

خزاں کی بوڑھی تھکن کو بہار کرتے رہے

چائے سے متعلق ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ ہمارے دوستوں میں سے ایک فیملی کینڈا کے نارتھ میں شفٹ ہوئی۔ ان کے آس پڑوس میں سب کینیڈین فیملیز ہی تھیں۔ ایک دو گھر چھوڑ کر ایک بزرگ خاتون جینفر اکیلی رہتی تھیں۔ کچھ عرصہ کے بعد خاتون خانہ نے جینفر کو چائے کی دعوت دے ڈالی۔ انہوں نے اس شرط پردعوت قبول کی کہ میزبان خاتون ایک سادہ چائے کے کپ سے زیادہ کوئی تکلف نہیں کریں گی۔ جو کہ بخوشی قبول کر لی گئی۔

جینفر جب میری دوست کے گھر آئیں تو انہوں نے کچھ دیر بعد کچن میں جا کر ساس پین نکالا اور جس طرح سے وہ اپنے گھر میں تیز رنگ والی چائے پکا کر بناتی تھیں، بنانا شروع کی۔ جس پر جینیفر نے خاصی حیرت کا اظہار کیا۔ لیکن میری دوست نے انہیں یہ کہہ کر تسلی دے دی کہ وہ اپنے گھر کے مروجہ طریقے سے چائے بنا رہیں ہیں۔ لیکن جب میری دوست نے کفگیراور چھلنی کی مدد بھی لی تو جینیفر کی حیرانی قدرے برہمی میں بدل گئی کہ میرا مقصد آپ کے ساتھ چائے کی ایک پیالی پینا تھا آپ تو ککنگ کرنے لگیں؟ آپ کو فقط ایک ٹی بیگ کھولتے پانی کے مگ میں ڈال دینا چاہیے تھا۔ زندگی کو سادہ بنائیے مشکل نہیں۔ لیکن یہ تو جینفر کا خیال تھا ہر شخص اپنے ذوق اور پسند کے مطابق ہی چائے پینا پسند کرتا ہے خواہ کچھ مشکل ہی کیوں نہ ہو۔

چائے سادہ ہو، یا کاڑھ کر بنائی جائے، مصالحہ چائے ہو یا کشمیری، اگر خلوص اور محبت کی دھیمی دھیمی آنچ پر بنائی جائے تو لا جواب ہے۔ اس سے صحیح لطف اٹھانا ہو، تو جسمانی اور دماغی تھکن ضروری ہے اپنی زندگی کو متحرک اور با مقصد بنائیے اور چائے کو انجوائے کریں۔

کڑوی کسیلی اور ٹھنڈی چائے ہم میں سے کسی کو بھی پسند نہیں۔ ہماری زندگی بھی تو چائے کی ایک پیالی کی مانند ہے جب تک ہم اس میں اپنی محنت، بھر پورصلاحیت اور لگن کا میٹھا نہیں ڈالتے، وہ خودبخود میٹھی نہیں ہوگی۔

Check Also

Selfie Program

By Syed Mehdi Bukhari