Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Ammi Gee

Ammi Gee

امی جی

سادہ، سفید یا ہلکے رنگوں کے کپڑوں میں ملبوس، دھان پان امی جی سادگی اور متانت کا پیکر تھیں۔ امی جی کا تعلق روایتی راجپوت زمیندار گھرانے سے تھا۔ والدین اور بہن بھائیوں سےبھرے پرے گھر میں پرورش پائی۔ گھر میں ہی دینی اور دنیاوی تعلیم وتربیت کا اہتمام تھا۔ شادی کے بعد بھی انہیں ملتا جلتا ماحول ہی ملا۔ امی جی بہت خوش نصیب تھیں، کہ انہیں بےحد محبت اور خیال رکھنے والے شوہر کے ساتھ ایسی سسرال بھی ملی جس نے انہیں بہت عزت وتکریم دی۔ اور اس میں ان کی حلیمانہ طبعیت، برداشت اور کم گوئی کا نمایاں دخل تھا۔

امی جی شوہراور بچوں کے ساتھ اپنی پرسکون زندگی اور گھر گھرستی میں مصروف تھیں، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہرروز کی طرح اس دن بھی سورج نکلا اور معمول کے مطابق دن کا آغاز ہوا۔ لیکن اس روز امی جی ازدواجی زندگی کے قریب ساڑھے بارہ سال گزارنے کے بعد زندگی کے سفر میں اپنے رفیق حیات سے محروم ہو گئیں۔ اس اچانک سانحہ کے بعد امی جی پر کڑا وقت تھا، لیکن وہ اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم وتربیت کیلئے ہر محاذ پر لڑنے کے لئے تیار تھیں۔

جس طرح ملاح اپنی کشتی پار لگانے کے لئے بڑے سے بڑے طوفان سے بھی ٹکرا جاتا ہے، کچھ ایسی ہی کیفیت امی جی کی بھی تھی۔ وہ ہمارے ایک ایک قدم کی رہنما تھیں۔ اور پھر اس رہنمائی میں بڑے برادر محترم بھی شامل ہو گئے۔ اور سب بہن بھائی اپنے تعلیمی مراحل طے کرنے میں مشغول ہو گئے۔ اس کڑے وقت نے امی جی کو دوست، دشمن اور اپنے پرائے کی پہچان بھی کرا دی۔ آسمان نے کئی رنگ بدلے، لیکن امی جی پوری ثابت قدمی سے حالات کا مقابلہ کرتیں رہیں۔

یوں تو ہر ماں اپنے بچے سے بے حساب محبت کرتی ہے، لیکن امی جی کی پوری دنیا اور کل کائنات کا محور صرف ان کے بچے ہی تھے۔ ہماری دھن اور فکر میں وہ اپنی ذات، کھانا پینا، آرام اور نیند سب بھول جاتیں تھیں۔ امی جی کے ہاتھوں میں قدرتی ذائقہ تھا، بہت محبت سے کھانا بناتیں اور ہمیشہ فکر کرتیں کہ ہم سب اچھی طرح سے کھائیں۔ کھانا ہمیشہ حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق بنتا۔

روزانہ کے اخبار کے علاوہ مختلف دینی، طب و حکمت اور امور صحت سے متعلق کتب اوررسائل کا مطالعہ کرتیں۔ امی جی نرم دل، صاف گو اور سادہ طبعیت کی مالک تھیں۔ گھریلو ملازمین کی طرف ان کا رویہ نہایت مشفقا نہ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ امی جی نے کبھی کوئ سہیلی نہیں بنائ، کیو ں کہ وہ اپنا سارا وقت صرف اور صرف ہمیں دینا چاہتیں تھیں۔ ہماری تعلیم و تربیت کے معاملات میں سخت اور حد درجہ محتاط تھیں۔ وہ بےلوث محبت ا ور قربانی کی روشن مثال تھیں۔

وقت پر لگا کر اڑ رہا تھا۔ امی جی کے گھونسلے سے پرندے اپنی اڑانیں بھرنے کے لئے تیار تھے۔ ملازمت اور شادی بیاہ جیسے معاملات کےلئے گھر سے دور جانے کا وقت آ رہا تھا۔ ایک طرف ان اہم ترین معاملات کی ذمہ داری، تو دوسری طرف بچوں کے گھر سے دور جانے کا دکھ، امی جی کو دونوں محاذوں پر لڑنا تھا۔ یہاں بھی امی جی نے پوری قوت اور فہم وفراست سے کام لیا، اور اپنی ذمہ داریاں بخوبی انجام دیں۔

بچے خواہ کتنے بڑے ہو جائیں، ماں کے ساتھ ان کے رویوں میں ہمیشہ ایک بچپنا سا رہتا ہے۔ ستمبر 1998میں کینڈا آ نے کے بعد ہر دوسرے تیسرے روز امی جی سے بات ہوتی تھی۔ ایک روز میں نے ان سے فرمائش کی، کہ وہ مجھے خط لکھیں۔ ہنستے ہوئے کہنے لگیں، جب فون پر بات ہو جاتی ہے تو خط میں کیا لکھوں گی؟ میری ضد پر مان گئیں۔ میں نے ہر روز میل باکس چیک کرنا شروع کر دیا۔ پھر وہ یادگار دن بھی آیا جب ان کا لکھا ہوا خط میر ے ہاتھوں میں تھا، جس کے ایک ایک حرف میں سے ان کی محبت اور خوشبو چھلک رہی تھی۔ آج بھی اس خط کو چھونے سے اس محبت کا احساس ہوتا ہے، لیکن ان کے جانے کے بعد آنسوؤں کی د ھند میں الفاظ روشن نہیں رہتے۔

میری پاکستان آمد کے متعلق ہمیشہ استفسار کرتیں، گھر اور بچوں کے بارے میں بہت سے باتیں پوچھتیں۔ میرے پاکستان جانے پر ہم سب بہن بھائی امی جی اور برادر محترم کے پاس اکھٹے ہوتے، اور سب اپنے بچپن اور بہت سی پرانی یادوں کو تازہ کرتے۔ میں انکے ساتھ ان ہی کی کمرے میں رہتی، ہم رات گئے دیر تک جاگتے، اور ڈھیروں باتیں کرتے۔ وہ بچوں کی معصومیت اور طفلانہ شرارتوں سے بہت خوش ہوتیں، اور جب میری واپسی کا وقت قریب آتا تو اداس ہو نے لگتیں۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے اپنی اداسی چھپانے کی بھرپور کوشش کرتیں، اور یہاں بھی امی جی مجھ سے زیادہ مضبوط نظر آتیں۔

دیا رغیر میں بسنے والوں کے ساتھ ایک ستم یہ بھی ہے کہ ان کے پیارے چاہتے ہیں کہ ان کو صرف خوشی اور راحت کی خبر ہی دی جائے۔ امی جی بھی جب کسی علالت کا شکار ہوئیں تو مجھے ان کے صحتیاب ہونے کے بعد ہی بتایا گیا یا کبھی بےخبر بھی رہنے دیا گیا اور اس میں یقینی طور پرامی جی کی رضا بھی شامل تھی۔ لیکن ماں بیٹی کا رشتہ بھی عجیب ہوتا ہے۔ ان کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ان سے بات کرنے کے بعد دل کچھ اضطرابی کیفیت سے دو چار ہو جاتا۔ کیوں کہ امی جی کی صحت خراب رہنے لگی تھی۔ کبھی تو یوں بھی محسوس ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے فرائض سے سبکدوش ہو گئیں، تو انہوں نے جینے کی خواہش ہی چھوڑ دی تھی۔ امی جی نے بفضل خدا اپنی کشتی پار لگا دی تھی، اور اس کے مسافر اپنی اپنی منزل تک پہنچ چکے تھے۔

یکم جنوری 2004 کو نئے سال پر امی جی سے بات کرنے کے لئے فون کیا تو باجی نے بتایا کہ امی جی ابھی سوئیں ہیں، تم کہو تو جگا دوں؟ لیکن میں نے ان کے آرام کے پیش نظر منع کر دیا۔ باجی نے بھی کہا، کہ میں تمہاری بات کروا دو ں گی۔ لیکن کاتب تقدیرکو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔ تین جنوری کو امی جی نے خاموشی سے اس عارضی دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ آج تک دل پر اس پچھتاوے کا بوجھ ہے کہ میں ان سے آخری بار بات کر لیتی، ان کی آواز سن لیتی۔ وقت گزرتا رہا اور میں نے دل پر صبر کا پتھر رکھ کر اسے سمجھایا، کہ یہی نظام قدرت ہے۔

ہم سے بے پناہ اور غیر مشروط محبت کرنے والے ماں باپ اس دنیائے فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ لیکن وہ ہمارے دل، احساس اور دعاؤں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ ان کی دی ہوئی تعلیم و تربیت اور پیا ر لے کر ہم زندگی کے راستوں پر چلتے رہتے ہیں۔

ماں، تیرے بعد بتا کون لبوں سے اپنے

وقت رخصت میرے ماتھے پہ دعا لکھے گا؟

امی جی کے جانے کے بعد شاید ہی کوئی ایسا پل ہو جب ان کا احساس میرے ارد گرد نہ ہو۔ خاص طور پر کسی خوشی و غمی میں تو یہ احساس اور شدت پکڑ لیتا ہے۔ مرے بچوں کے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی امی جی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔

لیکن جیسے ہی وہ کچھ بڑے ہوۓ تو امی جی کا تعارف ان سے ہوا۔ آج جب بھی کوئ فرمائش پوری کروانی ہو تو مجھے امی جی کہہ کر بلاتے ہیں۔

امی جی کی محبت اور قربانیوں کو الفاظ میں قید کرنا ناممکن ہے۔ امی جی وہ گھنا سایہ تھیں، جس نے آخری سانس تک ہمیں زمانے کی گرم ہوا محسوس نہیں ہونے دی۔ امی جی وہ رشتہ تھیں، جس میں کوئی غرض نہیں تھی۔ امی جی پرخلوص دعاؤں کا روپ تھیں، محبت اور شفقت کی ردا تھیں۔ آج الحمدا للہ ہم سب بہن بھائی زندگی کے سفر میں کامیابی کے ساتھ سر اٹھا کر جی رہے ہیں۔ اور جب کبھی پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ امی جی ہمیں دیکھ کر مسکرا رہیں ہیں، کہ جو ذمہ داری خداتعالی نے ان کے کندھوں پر ڈالی تھی، وہ اسے پوری ایمانداری اور جی جان سے ادا کر کے اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئیں۔

ابھی بھی چاند راتوں میں یہاں پریاں اترتی ہیں

اماوس میں ابھی بھی نور میرے ساتھ چلتا ہے

ہوائیں اب بھی مجھ کو دیر تک لوری سناتی ہیں

فضائیں اب بھی میرے ساتھ مل کے گنگناتی ہیں

کوئ مانوس سی خوشبو ہر اک سو پھیل جاتی ہے

میرے کاندھوں کو دھیرے سے کوئ آ کے ہلاتا ہے

میرے پہلو میں آ کے اب بھی کوئ بیٹھ جاتا ہے

اکیلے میں کبھی جب تمہاری یاد آتی ہے

Check Also

Holocaust

By Mubashir Ali Zaidi