Saturday, 13 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Alag Magar Khas

Alag Magar Khas

الگ مگر خاص

کل ٹیسٹ پر والدین میں سے کسی ایک کے دستخط کروا کر لانا، آخری دن ہے۔ درشت لہجہ ننھے دل و دماغ پر خوف کے پنجے گاڑچکا تھا۔ ٹیسٹ باپ کے ہاتھوں میں تھا، پانچویں جماعت ہی تھی، لیکن فیس اور توقعات کا بوجھ بہت بھاری تھا۔ دھیان کہاں ہوتا ہے تمہارا؟ لکھنے پڑھنے کو مذاق سمجھتے ہو؟ الٹے پلٹے لفظوں سے کاپی بھری ہوئی ہے۔ لیکن اس سوال کا جواب تو وہ معصوم ذہن خود ڈھونڈ رہا تھا، کہ الفاظ اور ان کی آوازیں کبھی اس کے دوست نہ تھے۔ جیسے ہی سامنے آتے، ذہن میں بوال مچا دیتے۔ وہ آوازوں اور لفظوں کے ہجوم میں جیسے پاگل سا ہونے لگتا، کبھی کسی ایک لفظ پر ذہن کی سوئی اٹک جاتی، بار بار اسی میں غلطی ہو جاتی۔ لیکن وہ محض شرارت نہیں تھی۔

بیٹا کب سے آوازیں دے رہی ہوں؟ آپ جواب کیوں نہیں دے رہے۔ ماں نے جھنجلا کر بچے کی طرف دیکھا، وہ اپنی دنیا میں مگن تھا۔ بیٹا آپ کی ٹیچر بتا رہی تھیں کہ آپ کلاس اور بریک میں دوسرے بچوں سے بات کرنا یا کھیلنا پسند نہیں کرتے؟ کیا وہ آپ کے دوست نہیں؟ کئی تقریبات میں بھی وہ اکثر اکیلا رہنا ہی پسند کرتا تھا، اپنے ہم عمر بچوں میں گھلنا ملنا اسے زیادہ پسند نہیں تھا۔ بیٹا میری طرف دیکھو؟ ماں جیسے کچھ سوچنے لگی تھی، عمر کے حساب سے بچے نے لیٹ بولنا شروع کیا تھا، سکول کی تیاری کے لئے بھی اسے دوسرے بہن بھائیوں کی نسبت کافی وقت لگ جاتا۔۔ ماں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ سکول ٹیچر سے مل کر بچے کے لئے کوئی لائحۂ عمل ترتیب دے گی۔ آٹزم کی فوری اور ابتدائی مراحل میں نشاندہی بہت اہم ہے۔

آج پھر ہماری بیٹی کے سکول سے شکایت آئی ہے، اب کیا ہوا؟ ہونا کیا ہے، اپنی کلاس فیلو کو دھکا دیا اس کے منہ پر ناخن مارے۔ میں بات کروں گی۔ ہاں جیسے ہمیشہ کرتی ہو۔ بہت اچھی تربیت کر رہی ہو تم۔ بیٹا آپ نے جس بچی کو مارا وہ تو آپ کی دوست ہے؟ پھر کیوں؟ ماما اس نے میرے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دیا تھا تو مجھے بہت غصہ آیا اور میں نے اسے مارا۔ بات تربیت سے کچھ آگے کی تھی جسے سمجھنے کی ضرورت تھی۔ ڈسلیکسیا، آٹزم، اے۔ ڈی۔ ایچ۔ ڈی (ADHD) ان سب کی ابتدائی علامات کو سمجھنا اور جاننا بہت ضروری ہے۔ جس میں والدین اور اساتذہ کلیدی کردارا ادا کر سکتے ہیں۔

اولاد خدا تعالی کی ایک انمول نعمت ہے۔ یہاں بھی حضرت انسان اپنی من مانی پر اتر آتا ہے۔ ایک صحت مند، صحیح سالم اور نیک بخت اولاد کے بجائے اولاد نرینہ کا لالچ کرنے بیٹھ جاتا ہے۔ اگرچہ وقت کے ساتھ اس میں کافی تبدیلی آئی ہے لیکن آج بھی اس فرسودہ سوچ کے حامل افراد موجود ہیں، جو اپنے گھر اآنے والی رحمت پر افسردہ نظر آتے ہیں۔ کسی گھرانے میں تیسری مخلوق کے جنم پر وہ بچہ اور گھر معاشرتی کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ لوگوں کے سوال وجواب کے خوف سے ماں باپ اپنے ہی بچے کو اپنانے سے خوف زدہ دکھائی دیتے ہیں کہ ایسے بچوں کو یہ بے رحم معاشرہ اپنے سلوک اوررویوں سے کسی گالی سے کم نہیں قرار دیتا۔ تعلیم، صحت، روزگار، عزت، محبت، شناخت جیسے بنیادی حقوق سے محروم یہ افراد تنگ دل اور تنگ نظر معاشرے کے لئے ایک سوالیہ نشان ہیں؟

ناچ گانا، بھیک مانگنا اور تضحیک کا نشانہ بننا، ہم شاید ان کے لئے اس سے زیادہ نہیں سوچ سکتے۔ لیکن ہمارے ہی اطراف میں ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں والدین نے اپنا کردار بخوبی نبھایا اور معاشرتی دباؤ میں نہ آتے ہوئے ایسے بچوں کو پڑھایا لکھایا اور اپنی استطاعت کے مطابق ڈاکٹروں سے مدد لی، تاکہ وہ بھی ایک نارمل انسان کی طرح زندگی بسر کر سکیں۔ جہاں صحت مند انسانوں کو رنگ، قد، جسامت، چال ڈھال، وضع قطع اور ظاہری خدوخال کے پیمانوں پر جانچا جائے، تو اس سے معاشرتی رویوں کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔ مسکلر ڈساٹرافی والا بچہ اپنے ہم عمر بچوں کو بھا گتے، دوڑتے دیکھ کر کیا محسوس کرتا ہے؟ یا پھر ڈاؤن سنڈروم والے بچے کیا سوچتے ہوں گے؟ اس کا ادراک تو کوئی اہل دل اور ہمدرد انسان ہی کرسکتا ہے۔

کیا سماجی، معاشرتی اور مالی دباؤ کا شکار والدین اور استاد ان خاص بچوں کو وہ توجہ اور پیار دے سکتے ہیں؟ جو ان کا بنیادی حق ہے؟ کیا یہ بچے یا بڑے محلے کے لوگوں، دوستوں اور رشتہ داروں کی چبھتی نگاہوں، یا تضحیک آمیز رو یے کو برداشت کرنے کی ہمت رکھتے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ اس تماش بین اور علمی طور پر پسماندہ معاشرے میں یہ حوصلہ ان کے والدین بھی نہیں رکھتے۔ معاشرہ ان خاص بچوں کے سر پر فخریہ انداز میں فرد جرم عائد کر دیتا ہے۔ جبکہ ترقی یافتہ مملک میں ان بچوں کے ساتھ بہت محبت اور شفقت سے پیش آیا جاتا ہے۔ ان کو پڑھانے کے لئے سکولوں میں الگ سے اساتذہ موجود ہوتے ہیں، جنہوں نے ان بچوں کو پڑھانے کے لئے سپیشل کورسز کیے ہوتے ہیں۔ ان کی جسمانی اور ذہنی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیمی پروگرام تشکیل دیے جاتے ہیں۔ ان کوپیار خصوصی توجہ ملتی ہے، ان کے اندر پوشیدہ صلا حیتوں کو پہچانا جاتا ہے، تاکہ وہ بھی معاشرے کا کار آمد حصہ بن سکیں۔ ان خاص بچوں کو بھی قدرت نے کوئی نہ کوئی خوبی یا وصف عطا کیا ہوتا ہے، جسے پہچان کر انہیں تراشا جا سکتا ہے۔

Check Also

Sham Phir Saans Le Raha Hai

By Wusat Ullah Khan