Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saadia Bashir
  4. Ranj Leader Ko Bohat Hai Magar Aaram Ke Sath

Ranj Leader Ko Bohat Hai Magar Aaram Ke Sath

رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ

پورے ملک میں نیا پن لانے کے لیے بادشاہ سلامت نے وزراء و مشیران اور ان کے قرابت داروں کا اجلاس بلایا اور ان سے امن اور خوش حالی کے لیے مشورے چاہے۔ زمانہ قدیم سے رواج تھا کہ سب سے پہلا مشورہ اور سب سے پہلا پتھر بادشاہ سلامت کے ہی ذمے ہو گا۔ اجلاس صرف مشاورت کے لیے بلایا گیا تھا، پتھر سازی کا مرحلہ عوامی میلے میں طے کیا جانا تھا۔ بادشاہ نے مشورے کے نام پر سفید کاغذ ٹرے میں رکھا، اس پر کچھ پڑھ کر پھونک ماری اور حکم دیا کہ اسے کھولنے کی ضرورت نہیں، اس کے ثمرات ہر خاص و عام تک پہنچ چکے ہیں۔

اب ضرورت ہے کہ اس اقدام پر تالیوں کے لیے ہر سطح پر فوج بھرتی کی جائے، بڑے وزیر نے مشورہ دیا کہ سب سے پہلے زنجیر عدل کو اتار کر ایک صندوق میں رکھ دیا جائے، تا کہ عوام میں بڑھتے ہوئے لالچ اور خواہش انصاف کا قلع قمع ہو سکے۔ اس مشورہ پر فوری عمل کیا گیا اور سب نے تالیاں بجائیں۔ یہ ہوتا ہے فوری حل، فوری عمل درآمد اور ویژن، بادشاہ سلامت آپ ہزار سال جئیں۔ ایک سرکلر جاری کیا گیا جس کے چوہتر نکات تھے، ان سب کی بنیاد ایک ہی تھی کہ زنجیر عدل کو نظر بد اور اس کی پالش خراب ہونے بچانا کس قدر اہم تھا۔

دوسرے وزیر نے صلاح دی کہ بازار سے نمک غائب کر دیا جائے، نہ ہو گا نمک اور نہ زخموں پر نمک پاشی کی کوئی شکایت موصول ہونے کا اندیشہ ہے۔ اگلے وزیر نے مرچوں کو بھی غائب کرنے کی صلاح دی، کیونکہ نمک غائب ہونے کی صورت میں عوام اپنے زخموں پر مرچیں بھی چھڑک سکتی تھی۔ اس تجویز کے دو حصے تھے یعنی صرف لال مرچ ہی نہیں سبز مرچ بھی کہیں نظر نہ آئے۔ کیونکہ زخم کو ہرا رکھنے کی عادت ادب عالیہ کا خاصہ تھا اور اس طریق سے عوامی سطح پر ادب میں نیا پن لایا جا سکتا تھا۔

حکومتی دفاع کے لیے یہ خاصا مضبوط پوائنٹ تھا۔ دانا وزیر نے حکم دیا کہ ثابت لال مرچوں کو بھی اس پابندی کا حصہ بنایا جائے، کہیں عوام انھیں نظر اتارنے کے لیے نہ استعمال کرنا چاہیں اور پھر اگر کسی نے نظر اتارنے کے لیے زنجیر عدل کو طلب کر لیا؟ اس تجویز پر ڈیسک بجائے گئے، باقی سبز رنگ چیزوں کی طرف کسی کی نظر نہیں گئی۔ حکومتی اراکین کو ہرا ہرا سوجھنے کے لیے ان اشیاء کی موجودگی ضروری تھی۔ آخرساون کی پھوٹی کو بھی تو ہرا ہرا ہی سوجھتا ہے۔

فوسل فیولز سے لے کر ہر چھوٹی بڑی "خطرناک" چیزوں کی بندش پر اتفاق رائے پر دستخط کیے گئے بادشاہ سو چکا تھا سو انگوٹھے سے کام چلایا گیا۔ دیگر مصالحوں کو اس پابندی سے مبرا قرار دیا گیا تا کہ بیانات کو قوم کے سامنے مصالحہ لگا کر پیش کیا جائے۔ ادب کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی مبالغہ آرائی کو صنعت کا درجہ دینے کا اعلان کیا گیا۔ یہ صحبت آگے چل کر جو گل کھلانے والی تھی اس کا سوچ کر ہی سب کے منہ میں پانی آ گیا، اسی لیے اس پر ٹیکس معاف کر دیا گیا۔ دراصل ٹیکس اور پتھروں کا حساب کتاب صرف عوام کے ساتھ ہی طے تھا۔ اس تجویز کو سراہنا حکومت سازی کی بنیادی شرط تھی۔

اگرچہ اخلاقی نتائج کے لیے اصل بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا کہانی یا حکایت کا فن ہے۔ لیکن اس وقت قوم کو پر امید رکھنے کے لیے اس فن پر باقاعدہ کمیٹی بنائی گئی اور ڈھٹائی سے جھوٹ بولنے والوں کو سند فضیلت عطا ہوئی۔ اندھے کو اندھیرے میں دور کی تو سوجھ سکتی ہے، لیکن مبالغہ آرائی میں حد سے بڑھنا اس کے لیے شاید ممکن نہ ہو سکے۔ اس کے لیے بند آنکھوں کی ضرورت تھی۔ جن کے کان بند اور زبان میں دریاؤں کی سی روانی اولین شرط تھی۔ جس کے ساتھ خس و خاشاک کا ریلا بھی ہو، تاکہ انتظامی نظام پر تحقیق کی صورت عذرلنگ پر بھاری بھر فائل تیار ہو۔ جب تک فائل کھلے گی دس فٹ برف پگھل کر گورنر ہاوس کھل چکا ہو گا۔

امن و خوش حالی کے جاری اجلاس میں دھرنا، احتجاج اور شکایت کی سیاست کو روکنے کے لیے تجویز دی گئی کہ دفاتر، عملے، مشینری غرض ہر شے کی جگہ تبدیل کر دی جائے یہ حرکت اسلام کا اصول اور کائنات کی بقا ہے۔ جب بھی " نیا نو دن، پرانا سو دن " کا نعرہ لگے، تو چیزوں کو واپس پہنچا دیا جائے گا۔ اتنے عرصے میں نیا پن کے ساتھ پرانا پن کا شکارجاری رہے گا۔ یہ شکایت بھی کی گئی کہ عوام بہت نا شکری ہے اسے ہر بات پر شکایت رہتی ہے اور یہ پرانا وقت یاد کرنے لگتی ہے۔

خواندہ و نا خواندہ ہر طبقہ کے لیے سڑک کے دونوں اطراف بورڈز پر سلوگن کے ساتھ خوش حال مملکت کی تصاویر بھی لگائی گئیں۔ صبح و شام تقاریر میں خوش حالی کی کہانیاں تواتر سے سنائی جاتیں تا کہ انصاف کا بول بالا رہے۔ خود رو سبزہ کو بھی خوش حالی سے تعبیر کرنے کی صلاح دی گئی۔ تالیوں کے زور میں مرنے والوں کا ذکر قصہ پارینہ بنتا جا رہا تھا۔ آگ لگے پر ہی کنواں کھدوانے کو بچت اور حکمت عملی سمجھنا نہایت ضروری تھا۔

ٹوپیاں، تسبیحات، وظائف اور دیگر علامات کے نام پر مذہبی جنون تقسیم کیا گیا تا کہ شکر کی عادت پختہ ہو سکے۔ دانا و عاقل مشیران میں سے کسی نے مولوی نذیر احمد کے ناول مرآة العروس کا ذکر نہیں کیا جس میں اکبری اور ااصغری کے ساتھ ایک کٹنی کا ذکر بھی ہے جو اپنے ساتھ تبرکات رکھتی تھی اور حجن کا بھیس بنائے قوم کا سوری اصغری کا سارا زیور لے اڑی، اجلاس کے باہر بیٹھے لوگ دعا میں مصروف تھے کہ بھلے وہ نادان ہی سہی مگر، ان کا حال اصغری جیسا نہ ہو۔ کیونکہ رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ۔

Check Also

Adh Adhoore Log

By Muhammad Ali Ahmar