Ghuss Baithiya
گھس بیٹھیا
چند ماہ قبل، گلوکار جواد احمد ٹورنٹو تشریف لائے تو میری طرح اور بہت سے لوگ صرف اس وجہ سے اسے سننے نہیں گئے کہ وہ مریضانہ حد تک بغضِ عمران کا شکار بندہ ہے اور اس کی تحریکِ انصاف یا خان صاحب پر تنقید بلاوجہ اور بلا ضرورت ہوتی ہے۔ جواد کا ذکرِ خیر اس لئے آیا ہے کہ ایسے کھلے دشمن، جو بات بہ بات منہ سے جھاگ اڑاتے پھرتے ہیں (محاورتا کہہ رہی ہوں) بہرحال گھس بیٹھیوں سے بہتر ہیں۔
اب آپ کو ملواتی ہوں ایک گھس بیٹھیئے سے۔ رجیم چینج کے بعد یوں، ووں تے میں، توں کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔ یا آپ ہیں یا آپ نہیں ہیں۔ اور اگر آپ ہیں تو پورے قد کے ساتھ کھڑے ہوں اور اگر آپ نہیں ہیں تو دوسری طرف جا کر ہماری نظروں سے گُم ہو جائیں۔ گلوکار ابرارالحق تحریک انصاف کا ایک ایسا گھس بیٹھیا ہے جو ایک وقت میں بہت سی ٹوپیاں سر پر رکھے ہوئے ہے۔
شائد 2015 تھا، جب میں نے اس کا انٹرویو کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ "آپ گلوکار بھی ہیں، سوشل ورکر بھی ہیں اور سیاست دان ہیں تو سوال یہ بنتا ہے کہ ایک گلوکار اور فیلونتھراپسٹ کا کام تو سب کے لئے ہوتا ہے اس کی نہ کوئی سرحد ہوتی ہے نہ حد مگر ایک سیاست دان کا ایک نظریہ ہوتا ہے، جس سے سو لوگ اتفاق کرتے ہیں تو دو سو اختلاف کرتے ہیں تو کیا آپ کا سیاست میں آنا آپ کی زندگی کے باقی دو میدانوں کو تنگ یا پابند نہیں کرے گا؟
یہ سب شعبے ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے نہیں؟ ابرار نے تب کیا زبانی جواب دیا وہ تو یاد نہیں مگر اس کا عملی جواب مجھے کل رات کو اس کے کنسرٹ میں شرکت کر کے مل گیا۔ جس کو کنسرٹ کہنا بھی چاہیئے یا نہیں اس کا فیصلہ بعد میں کرتے ہیں پہلے میں قارئین کی توجہ اس ذہنی اور سیاسی بددیانتی کی طرف دلانا چاہتی ہوں جو پہلے تو کبھی قابلِ برداشت ہوتی ہوگی مگر اب نہیں۔
اہلِ ٹورنٹو اس بات سے نالاں تھے کہ ابرارالحق بڑے بڑے کنسرٹس میں، حتیٰ کہ ہر شی سنٹر جیسے بڑے سنٹر میں بھی ہزاروں لوگوں کے سامنے لپ سنگنگ کر کے چلا جاتا ہے، لہٰذا اس دفعہ اس کے آنے کی خبر سن کر ہمارے شہر کی اکثریت کا یہ ردِعمل تھا کہ یہ لائیو پرفارمنس نہیں کرتا تو اس کے کنسرٹ پر جانے کا کیا فائدہ؟ باذوق لوگوں کو یہ موسیقی کے ساتھ بددیانتی لگتی ہے اور بالکل بجا لگتی ہے اس سے بہتر گھر میں بیٹھ کر کسی زیادہ بہتر گلوکار کو ہی کیوں نہ سن لیا جائے۔
مگر دل نے کہا آج کل تو عمران خان کے ساتھ کھڑا کوئی عام سا بندہ بھی آ جائے تو اسے بھی سر آنکھوں پر بٹھانا چاہیئے۔ ابرارالحق صرف گلوکار نہیں ہے ایک سیاست دان بھی ہے اور جس پارٹی کا وہ سیاسی لیڈر یا کارکن ہے وہ آج ایک مشکل راستہ چُن چکی ہے اور تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر آر یا پار کی جنگ میں اُتری ہوئی ہے۔
رجیم چینج کے بعد وہ لوگ بھی جو سیاست میں زیادہ متحرک نہیں ہوا کرتے تھے وہ بھی پاکستان کی اس حقیقی آزادی کی لڑائی میں آستینیں چڑھائے، کھلم کھلا کود پڑے ہیں۔ مائیں اپنے بچوں کو مصلحت سکھا رہی ہیں اور کہیں بچے اپنے ماں باپ کو ہوش کے ناخن دلوا رہے ہیں۔ رشتے داریاں اور دوستیاں تک نازک مراحل میں داخل ہو چکی ہیں۔ ایک نیوٹرل کی جعلی نیوٹریلیٹی کے بعد اب یہاں کوئی نیوٹرل نہیں ہے تو ہماری امیدیں یہ تھیں کہ ایسے حالات میں ابرارالحق کھل کر اپنا مؤقف دے گا اور اس لئے ہم تو ضرور جائیں گے۔
یاد رہے! اس لڑائی میں لوگوں کی جانیں جا رہی ہیں، امید تھی کہ ابرار سب پر نہیں تو ارشد شریف شہید پر تو کوئی بات کرے گا، چلو اس پر بھی نہ سہی اپنی پارٹی کے اس لیڈر کو گولیاں لگنے پر ہی کچھ کہے گا جس نے ملک کی خاطر اپنے اوپر زندگی کی سب خوشیاں حرام کر رکھی ہیں۔ مگر ابرارالحق نے ثابت کیا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کا ایک "گھس بیٹھیا" ہے جسے سوائے اپنے کچھ نظر نہیں آتا۔
آپ ضرور اپنے سماجی کام کریں، صرف ہونٹ ہلا کر لائیو گانے سنانے کا ڈرامہ بھی کریں لیکن پھر صرف اپنے بل بوتے پر۔ اگر آپ اتنے سیانے ہیں کہ اپنے فلاحی کاموں کو اور گلوکاری کو خان صاحب کے نظریات کے حق میں ایک بھی لفظ بولنے سے پاک رکھ سکتے ہیں تو خدارا بالکل اسی طرح اپنے ان کاموں کے لئے عمران خان کی شہرت کو بھی اپنے کسی بھی مقصد کے لئے مہرہ نہ بنائیں۔ ان کے کنٹینر سے نیچے اتر آئیں۔ ان کی پارٹی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑنا چھوڑ دیں۔
اگر آپ دیانتداری سے کھل کر سامنے آئے ہوتے تو یقین مانئیے ہم نومبر کی اس سرد رات کو اپنے لحافوں میں بیٹھ کر مونگ پھلی کھانے اور اپنی ٹی وی سکرین پر حبیب جالب کی شاعری سننے کو ترجیح دیتے مگر ایسے کنسرٹ کا کبھی حصہ نہ بنتے جو ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ کنسرٹ ہے یا فنڈ ریزنگ ڈنر ہے؟ وہاں ہم ایک عام سے لپ سنگر ابرارالحق کو سننے جا رہے ہیں یا عمران خان کے ساتھ کنٹینر پر کھڑے انقلابی گانے گانے والے ابرار الحق کو؟ ہمیں"جائیں یا نہ جائیں" کا فیصلہ کرنے میں بہت آسانی ہو جاتی۔ ہم تو جوڑا بھی لال اور سبز ڈھونڈ ڈھونڈ کے پہن رہی تھیں۔
اس بددیانتی کا پردہ تب فاش ہوا جب ہال کے مختلف کونوں سے عمران خان زندہ باد، پی ٹی آئی زندہ باد کے نعروں کے جواب میں آپ نے خان صاحب یا تحریک کے متعلق ایک بھی لفظ منہ سے نہیں نکالا۔ اس کی بجائے بالکل آغاز میں ہی آپ نے خان صاحب کے ساتھ اپنی قربت اور مانگنے تانگنے پر ایک تھکا ہوا سا بار بار کا دہرایا ہوا قصہ سنانا ضروری سمجھا اور جب سامعین کی بار بار کی فرمائش کے باوجود آپ نے "امپورٹڈ حکومت نامنظور" یا "گھس بیٹھیو" سنانا منظور نہیں کیا بلکہ ایک بضد اور پرجوش نوجوان کو ہلکی پھلکی سرزنش بھی کر ڈالی۔
جیسا کہ میں نے آپ سے بہت سالوں پہلے سوال کیا تھا تو کل اس کا جواب یہی ملا کہ آپ کی ترجیحات آپ کی زندگی کی سمت کا تعین کرتی ہیں۔ آپ خان صاحب کے ساتھ کنٹینر پر صرف گھس بیٹھے ہیں آپ کا اصلی مقصد (جو کہ یقینیا نیک ہے) اپنے فلاحی کام اور اپنی ذات ہے۔ لہٰذا میری آپ سے درخواست ہے کہ برائے مہربانی پھر آپ نظریے کے اس کنٹینر سے نیچے اتر آئیں کیونکہ نظریات کی جنگ یوں ڈھکی چھپی، لگی لپٹی نہیں کھیلی جاتی۔ اس میں سمندر میں پورا سر تک اترنا پڑتا ہے گھٹنوں تک، پاؤں پاؤں، چل کر آپ اس گہرائی کو سمجھ کیسے پائیں گے؟ اور اگر سمجھ نہیں پائیں گے تو اس کا حصہ کیسے بن پائیں گے؟
ابرارالحق صاحب، آپ کے اسی دوغلے رویئے کی وجہ سے آپ نارووال نہ 2013 میں فتح کر سکے اور نہ 2018 میں۔ حیرت کی بات ہے نا؟ جب خان صاحب کے نظریات کی تبدیلی چھوٹے چھوٹے دیہاتوں تک پہنچ چکی ہے آپ کا نارووال وہیں کا وہیں کھڑا ہے کیونکہ آپ خان صاحب یا پی ٹی آئی کے ساتھ نظریے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے مقاصد کی تکمیل کی خاطر کھڑے ہیں۔
پھر کہوں گی وہ یقیناََ اچھے ہیں، مگر فیصلہ لوگوں کو کرنے دیں کہ وہ ایک گلوکار ابرار کو سننے آئے ہیں یا سوشل ورکر ابرار کے فنڈ ریزنگ ڈنر میں شامل ہونے آئے ہیں اور یا وہ عمران خان کے ایک سپاہی کو ہر طرح سے سپورٹ کرنے آئے ہیں۔ کیونکہ رجیم چینج، خاص کر کے 25 مئی کے بعد، ارشد شریف کی شہادت کے بعد، عمران خان کو گولیاں لگنے کے بعد ہمارے پاس نہ فضول پیسہ ہے، نہ وقت، نہ انرجی جو ہم کسی بھی گھس بیٹھئے پر ضائع کریں اور اب ہمیں ملک کو ہی نہیں تحریک انصاف کو بھی ایسے "گُھس بیٹھیوں" سے آزاد دیکھنا ہے۔
۔ these days one should b very clear and very specific