Jamhuriat Conference Aur Pakistan
جمہوریت کانفرنس اور پاکستان
امریکی صدر جوبائیڈن کی میزبانی میں ہونی والی دو روزہ جمہوری کانفرنس کا مقصد دنیا بھر میں جمہوریت کی بحالی کے لیئے ایجنڈا رکھنا اور مل کر دنیا بھر میں جمہوریت کو لاحق خطرات سے نمٹنا تھا۔ کانفرنس میں جمہوریت کو مضبوط بنانا، آمرانہ نظام کا مقابلہ کرنا، کرپشن کے مسلے پر گفتگو اور انسانی حقوق کا فروغ ایجنڈے میں شامل تھا۔ اس جمہوریت کانفرنس کا سب سے اہم اور متنازع پہلو یہ تھا کہ امریکا ایک چین کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور تائیوان کو تسلیم نہیں کرتا، جبکہ چین تائیوان کے جزیرے کو چین کا علاقہ اور حصہ قرار دیتا ہے، لیکن امریکی صدر جوبائیڈن نے تائیوان کو بھی ایک ماڈل جمہوریت قرار دے کر اس کانفرنس میں مدعو کر لیا، اس باعث چین کا برہم ہونا لازمی امر ہے۔
دنیا بھر کی جمہوریتوں کو ساتھ ملانے کا مقصد امریکا اور اس کے حلیفوں کو روس اور چین سے الگ کرنا ہے۔ جمہوریت کانفرنس سے کچھ ممالک جیسے جرمنی اور جنوبی کوریا بے چین ہیں کیونکہ ان کی معیشت کا انحصار چین پر بہت حد تک ہے۔ امریکا ہر صورت چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنا چاہتا ہے۔ چین اور امریکا کے درمیان جو سرد جنگ چھڑی ہوئی ہے اس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تیزی آتی جا رہی ہے، اور خطے میں چین کے گرد گھیرا تنگ کر کے اسے تنہا کرنے کی امریکی کوششیں جاری ہیں اور اب جلتی پر تیل ڈالتے ہوئے امریکی صدر جوبائیڈن نے ورچوئل کانفرنس میں جمہوریت پر بات کرنے کے لیئے چین کو یکسر نظر انداز کر کے تائیوان کو مدعو کیا۔
چین کو امریکا ایک آمریت سمجھتا ہے اور اسی لیئے اسے مدعو نہیں کرنا چاہتا تھا جو کہ پاکستان کے لیئے خارجی سطح پر مشکلات بڑھا سکتا ہے۔ کانفرنس میں پاکستان کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی مگر پاکستان نے محتاط حکمت عملی کا اظہار کرتے ہوئے شکریہ کے ساتھ کانفرنس میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کا فیصلہ بلکل درست اور نیک نیتی پر مبنی ہے۔ کسی بھی خود مختار ملک کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک کے لیئے دیکھے کہ کیا کام ان کے لیئے بہتر ہے۔ ماضی میں حکمران سپر پاورز کی آنکھ کے اشارے کے منتظر ہوتے تھے، وہ جو کہتے تھے اسی طرح ہو جایا کرتا تھا۔
پاکستان کے اس فیصلے سے حیرت اس وجہ سے بھی نہیں ہونی چاہیئے کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ وائٹ ہاؤس نے بشمول صدر جوبائیڈن نے پاکستان کو نظرانداز کر دیا ہے۔ جوبائیڈن نے صدر بننے کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو ایک ٹیلی فون کال تک نہیں کی۔ امریکی صدر کو اپنے تحفظات کو چھوڑ کر پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی روایت کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو واشنگٹن دورے کی باعزت اور باوقار دعوت دینی چاہیئے۔ یہ حالات ہمیں اجازت نہیں دیتے کہ عالمی تفرقہ بازی کی حمایت کریں۔ اس پس منظر میں پاکستان کا یہ موقف حقیقت پر مبنی اور قومی مفاد کا تقاضا ہے۔
اس دوران جب دنیا بڑی تیزی سے بلاکس میں تقسیم ہو رہی ہے، کوئی تو ہو جو بلاکس کی بجائے پوری انسانیت کے مفاد کی بات کرے۔ کسی عالمی مقصد پر کوئی کانفرنس ہو عالمی معیشت کو متحرک کرنے کے مواقع یا انسانوں کو درپیش چیلنجز، تسلی بخش پیش رفت عالمی یکجہتی سے مشروط ہے۔ عالمی حالات اور افغانستان کے معاملات نے اس خطے کو ایک تغیر پذیر صورتحال سے دوچار کر دیا ہے، جس میں پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ہمیں کیا راستہ اختیار کرنا ہے، اس کا واضح تعین کرنے کی ضرورت ہے اور یہ واضح تعین ہونے تک محتاط حکمت عملی اختیار کرنا ہمارے لیئے زیادہ سود مند ہو گا۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا بجا ہے کہ دنیا ایک بار پھر سرد جنگ کی طرف جا رہی ہے۔ ہم امریکا اور چین کے مابین سرد جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے بلکہ اسے روکنے کی کوشش کریں گے۔ دیکھا جائے تو جمہوریت کے حوالے سے امریکی پالیسی دوغلے پن پر مشتمل ہے کہ بھارت، جسے امریکا دنیا کی بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے بھی کانفرنس میں شریک ہوا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل پیرا وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت میں جمہوری اقدار کمزور ہوتے گئے ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پر بار ہا تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اگر مقبوضہ وادی میں بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے کے بھارتی اقدام کو ہی دیکھا جائے تو کہنا غلط نہ ہو گا کہ کشمیریوں کی رائے کو دبانا ہی بھارت کی طرف سے جمہوری اقدار کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اگر امریکا جمہوریت کی صحیح روح کے مطابق ممالک کو استحکام بخشنے میں مدد دینے کی پالیسی اپنائے تو یقیناً اسے قبولیت ملے گی، تا ہم اس آڑ میں اپنے عزائم کو تکمیل تک پہنچانے کی پالیسی شاید ہی امریکا کا کھویا ہوا مقام دلا سکے۔