Thursday, 16 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Abdur Rehman Abdullah
  4. Ahle Sahafat Corona Ki Zadd Main

Ahle Sahafat Corona Ki Zadd Main

اہل صحافت کورونا کی زد میں

کورونا وائرس کے اس حالیہ انسانی تاریخ کے بد ترین بحران نے جہاں ریاست کے کمزور ستونوں کو عیاں کیا، وہاں صحافت جو اپنے آپ کو ریاست کا چوتھا ستون کہلوانا پسند کرتا ہے بھی شاید توازن برقرار رکھنے کے لئے خود کو گراتا چلا جا رہا ہے۔ بے چینی اور بدنظمی کے اس دور میں جہاں اس کا کردار حقائق کی باحفاظت ترسیل کے ذریعے عوام الناس کو باشعور رکھنا تھا، وہاں یہ عالمی ادارہ صحت کے مرض کے متعلق طبی حقائق کو لفٹ نا کرواتے ہوئے بے پرکی اڑانے میں محو ہے۔ میڈیا کے ان دانشوروں کے خیالات سے آشنا ہونے کے بعد بندہ اس اطمنیان سے "ہلکا" ہو جاتا ہے گویا مملکت خدادا کو کورونا سے نہیں بلکہ کورونا کو ہمارے ملک سے خطرہ ہے۔

"دنیا" کی ایک بڑی قدوقامت شخصیت جو وہاں کے اعزازی ریزیڈنٹ بھی کہلائے جاتے ہیں، جانے کیوں اول دن سے ریاست کا اس موزی مرض کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکھلا ٹاکرا دیکھنے کے متمنی تھے۔ موصوف جن کا شمار اپنے نام کے لغوی مغی کے مطابق انڈسٹری کی کامیاب اور خوش قسمت ترین شخصیت میں ہوتا ہے، کی نظر میں کراچی کا لاک ڈاون دراصل شہر کو تباہ کرنے کی سازش ہے۔ ان کا چین کی معمولات زندگی پر جانے والے واحد راستے سے انحراف اپنی جگہ، لیکن کیا انہیں اپنے حسن نظر پر غور نہیں کرنا چاہئے جو انہیں حکومت سندھ کے نسبتا بہتر لاک ڈاون کو جبری اور اذیت ناک دکھاتا ہے؟ یہ بڑی شخصیت زیادہ بہتر سمجھتی ہو گی کہ وہ کیوں انسانی زندگیوں کو داو پر لگا کر کاروباری نظام کی روانی چاہتے ہیں! شروع کے دن جب یہ موزی مرض مختلف مملک میں اپنے قدم جما رہا تھا تو صاحب نے اس عالمی کرائس کی تمہید کچھ اس اس طرح کی خوشخبری میں باندھی کہ اس آفت میں ہمارے ملک کے لئے طویل مدتی فائدہ اور کم مدتی نقصان ہے۔

ایک "جید" کالم نگار کم اینکر جو کہ جز وقتی طور شہر شہر نگر نگر گھومتے پائے جاتے ہیں، (ٹورز کے مول چکانے کے لئے رہبر کا کردار بھی ادا کرتے ہیں) نے جوش میں آ کر اپنے ایک کالم میں کورونا کو اسلام کا سب سے بڑا مبلغ ثابت کیا ہے۔ اس ہوائی کالم میں جہاں ان "جہاں دیدہ" صاحب نے مسلم امہ کی صفائی ستھرائی کی تعریفوں کے بند باندھ دئیے وہاں گندے کافروں کے لئے کورونا کو برحق ثابت کر کے ان کو جہنم کی نوید بھی سنائی۔ یہ صاحب اپنے یو ٹیوب چینل پر یہ پٹی پڑھاتے پائے گئے ہیں کہ یہ وائرس گرم پانی اور بھاپ سے نہیں بچ سکتا اور بقول ان کے چین نے اس طریقے سے ہی اپنی بخشش کروائی۔ ابھی مت رکیے پڑھیے اور سر دھنیے، خلیفہ جی جو کی جتنی مہارت اپنے تجزیے کرنے کی صلاحیت میں رکھتے ہیں، اتنا ہی غصہ ناک پر دھرنے کے لئے معروف ہیں۔ انہوں نے اپنے چاہنے والوں کو ڈھارس کچھ اس قسم کی خوشخبری سے بندھائی کہ وائرس کا چوبیس سینٹی گریڈ سے اوپر زندہ رہنا محال ہے۔ صاحب کی نظر میں پاکستان میں اموات کی کمی کی وجہ پاکستان کا خدا کی حفاظت میں ہونا ہے۔ (ایران اور سعودی عرب نوٹ فرمائیں) اپنے شو میں گرم پانی میں لیموں ڈال کر وائرس کی چربی گھلانے کا فلسفہ بھی پیش کیا۔"سچ" کی سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے زاتی جہاز تک پہنچنے والے اینکر، پروڈیوسر، ڈائریکڑ، سنگر اور مختلف صلاحیتوں والے "بشر" آج کی تاریخ تک مصر ہیں کہ یہ عالمی وائرس ملک میں پندرہ اپریل کے بعد دم توڑنا شروع ہو جائے گا۔ (نوٹ: ان کی جانب سے سال بتانے سے گریز کسی حکمت کے تحت ہی کیا گیا ہے) ان کی اس تھیوری کے جیتے جاگتے ثبوت، ستاروں کی چال اور ہاتھوں کی کھال کے وہ ماہر نیومرالوجسٹ و پالمسٹ تھے جن سے ان کی اس طبی موضوع پر سیر حاصل بحث ہوئی۔ موصوف کی نظر میں وائرس کا لیب میں تیار دال کالی ہونے کی وجہ بھی ہے۔

ایک سابق بیوروکریٹ جو دل بہلانے کی غرض سے شیطانی ڈبے کے سامنے آ کر خواتین کے بارے میں اپنے عریاں خیالات سے جانے جاتے ہیں نے کورونا کو حسب توقع ایک عذاب گردانا۔ ان کے مطابق واحد مسلم ملک ایران جو سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے اس پر اس عزاب کی وجہ نا صرف افغانستان سے طالبان کی حکومت ختم کروانا ہے بلکہ عراق، شام اور لبنان میں منفی کردار کا بھی ادا کرنا ہے۔ (یہ ثبوت پیش کر کے ہم تو افغان بھائیوں کے دل دوبارہ جیت سکتے ہیں) مذہبی حلقوں میں "مقبول" ان صاحب نے اپنے ٹی وی پروگرام میں طب یونانی کے ایک ایسے حکیم صاحب کو دعوت دی جن کا دعوی اپنے "کشتے" کے ذریعے تین دن میں کورونا کا علاج کرنا تھا۔ طب کی دنیا سے تجزیہ کاری کی دنیا میں قدم جمانے والے "ڈاکڑ صاحب" جو کہ کسی زمانے میں برحق ہونے کا دعوی کر کے پھانسی پر چڑھنے کے خواہاں تھے، کہ تجزیوں کا جائزہ لینے کے بعد کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ اس وائرس کے بعد سے نا صرف عالمی ممالک میں عملی جنگوں کا آغاز ہو چکا ہے بلکہ یہ بخوبی اختتام پزیر ہو کر مختلف ملکوں کے حدود اربع کو تبدیل کر چکی ہیں، جہاں یہ وائرس ابھی بھی مسئلہ ہے۔ ایک پروگرام میں موصوف نے امریکی جریدے کا حوالہ دے کر بتایا کہ امریکہ کے طیارہ بردار بحری جہاز تھیوڈور روزویلٹ کے 1200 امریکی فوجی کورنا کے شکار ہو گئے ہیں۔ دراصل آرٹیکل میں یہ لکھا گیا تھا کہ امریکہ کے کل 1200 فوجی وائرس کا شکار ہوئے ہیں۔ طیارہ بردار بحری جہاز میں وائرس کا شکار ہونے والی کی تعداد 93 بتائی گئی تھی جو اب تک 600 ہو چکے ہیں۔ (اب پتا چلا ڈاکڑ صاحب کے شو کی خاتون اینکر کیوں بے قصور تھیں؟)

پاکستان کے "نمبرون چینل" کی طرف رخ موڑئیے اور سر پٹخیے۔۔ وہاں "تبدیلی" کے ایک "امیر" قوم کے سامنے ایسے برخوردار کی منہ دکھائی کروانے میں مشغول ہیں جو کے کورونا وائرس کی تریاق کا موجد ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ (امیر صاحب سے درخواست ہے کہ وہ پانی سے گاڑی چلانے والے انجینئر صاحب کو بھی عزت بخشیں) اسی چینل پر ایک "بے نور" صاحب "میری جنگ" کرتے ہوئے ترنم کے ساتھ یہ ایکسلیوز ثبوت پیش کر رہے ہیں کہ کہ کس طرح ایک امریکی ملعون نے اپنی تھوک کے ذریعے وہان میں قیامت ڈھائی۔ (بھائی دھیان رکھیں آپ کی بے احتیاطی ٹرمپ کی چین پر حملہ آور ہونے کا باعث بن سکتی ہے) خان صاحب کے ایک جانثار جو کہ کالم نگاری کا بھی شفق رکھنے ہیں اپنے "مظہر کو بر نا لا سکنے" کا شکوہ اپنے کالم میں کچھ اس طریقے سے بیان کیا کہ ان کے کسی جاننے والے حضرت کے پاس کورونا کا شافی علاج تیس سکینڈ کے ٹیسٹ اور چوبیس گھنٹے کے علاج کی صورت میں ہے، مگر کیا کریں فارماسیوٹیکل مافیا آڑے آ رہی ہے۔ ملتانی شاعر و کالم نگار صاحب اور شہر اقتدار کے سینر دانشور، کالم نگار اور ماضی کے رپورٹر گھبرانا نہیں کی الاپ لگاتے ہوئے وائرس کی مزموم کاروائیوں کو وطن عزیز کی ناقابل شکست قوت مدافعت اور ڈھیٹ ہڈی سے شکست دینے کا سبق ازبر کروا رہے ہیں۔ (شاہینوں وطن عزیز کی میسر کردہ خالص خوراکیں دبا کر دبی رکھو) ایک اور چینل میں "دو جڑواں" نے مہمان کے ساتھ گفتگو میں کلونجی میں کورونا وائرس کا علاج ڈھونڈ کر "سما" باندھا۔ ساٹھ ہزار ٹیسٹ سے پانچ لاکھ مثبت نتائج نکال کر تراہ نکالنے پر قوم اس وقت "صابر" اور "شاکر" ہوئی جب موصوف کا اعتراف منظرعام پر آیا کہ صرف زبان پھسلی تھی۔

صدر ٹرمپ جو کہ ملکی میڈیا سے اس لئے ناراض ہیں کہ وہ کورونا کی آڑ میں امریکہ میں سخت قسم کا خوف پھیلا رہے ہیں، ان سے التماس ہے کہ وہ ان سب صاحبان سے رجوع کر کے انہیں اپنے ملک میں بلا لیں۔ ان کا یہ نیک عمل نا صرف ان کو ان کی میڈیا کی کچھ نا کرنے والی تنقید کی جھنجھلاہٹ سے محفوظ رکھ سکے گی بلکہ وہ 22 کروڑ زندگیوں کو محفوظ کر کے ثواب دارین بھی حاصل کر سکیں گے۔

Check Also

Shiddat Pasandi

By Mubashir Aziz