Khulasa e Quran, Teesri Nimaz e Taraweeh
خلاصہِ قرآن، تیسری نمازِ تراویح

تیسری تراویح کا آغاز تیسرے پارے "تِلکَ الرُسُلُ" کے دسویں رکوع اور آیت نمبر 21 سے ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے منکر، پیغمبروں کو ناحق شہید کرنے اور انصاف کاحکم دینے والوں کو قتل کرنے والوں کو دردناک عذاب کی وعید ہے۔ بنی اسرائیل نے ایک صبح 43 نبیوں کو قتل کیا اور اس عمل سے منع کرنے والوں 100 عابدوں کو بھی اُسی شام قتل کر ڈالا اور ان کے سب اعمال اکارت ہوگئے۔
اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور نشانیوں کو بیان کیا گیا جسمیں دن رات کا بڑھنااورگھٹنا، مردہ سے زندہ کرنااور ہر ظاہر و پوشیدہ کا علم ہونا شامل ہے۔ اسی طرح اہل ایمان کو کفارکے ساتھ دوستی کرنے، رازدار بنانے، ان سے موالات کرنے سے منع کیا گیا۔ آیت نمبر31اور32 میں فوزوکامیابی، اللہ تعالیٰ کی رضا اور قرب کا راستہ صرف محبت و اتباعِ نبیﷺ سے ہی ہو کے جاتا ہے اور غلامیِ رسولﷺ ہی اصل کامیابی ہے۔ پھر حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ، حضرت ابرہیمؑ اور حضرت عمرانؑ کی بزرگی و فضیلت کا تذکرہ کرتا ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انکو اسلام کے ساتھ برگزیدہ کیا مگر اے یہودیوں تمہارے اسلام پر ہونے کا دعویٰ غلط ہے اور یہ حضرات ایک دوسرے کے معاون و مددگارہیں۔
آگے تین واقعات بیان کئے گئے جن میں اللہ تعالیٰ کے قدرت کے دلائل ہیں حضرت عمرانؑ کے ہاں حضرت مریمؑ کی پیدائش اور حضرت زکریاؑ کی کفالت میں دینا، بے موسم کے پھل آنا، وہاں زکریاؑ کابڑھاپے میں اولاد کے لیے دعا کرنااور اللہ کی طرف سے انہیں نیک اور صالح بیٹے یحییٰؑ کی بشارت دینا، بی بی مریمؑ کو بغیر شوہر کے بیٹاعطاکرنا، حضرت عیسیؑ کی پیدائش اور معجزات کا بیان (جھولے میں بات کرنا، مٹی سے پرندے بناکرپھونک مارنا، مادر زاد اندھوں کو بینا کرنا، کوڑھیوں کو تندرست کرنا، مردوں کو زندہ کرنا، لوگوں کے گھروں میں کھانا پینا اور زخیرہ کردہ چیزوں کا بتا دینا) اور یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت "کن فیکون" یعنی ہو جا تو ہوگیا سے ممکن ہے۔
بنی اسرائیل شروع سے ہی حضرت عیسیٰؑ کے مخالف بن گئے مگر پھر بھی آپؑ نے انکو دعوتِ ایمان دی مگر وہ آپ سے شدید دشمنی پر اتر آئے اور بہت کم آپکے حواریوں میں شامل ہوئے۔ جب یہود آپؑ کے قتل کی سازش کرنے لگے تواللہ تعالیٰ نے اپنی خفیہ تدبیر سے حضرت عیسیٰؑ کو آسمانوں کی طرف اُٹھا لیا۔ آیت نمبر61 میں عظیم مباہلہ کا ذکر ہے جس نجران کا وفد حضورﷺ کے پاس حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش میں بحث کرنے آیا تو لاجواب ہوگیا مگر حقیقت جاننے کے باوجودان کو ہدایت نصیب نہ ہوئی تو آقاﷺ نے ان کو مباہلہ کا چیلنج دے دیا۔
آقا ﷺ نے فرمایا "آؤ ہم تم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اوراپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں"۔ نبی کریمﷺ حضرت علی و فاطمہ اور حسن و حسین کے ساتھ میدانِ مباہلہ پہنچے۔ اہل ایمان بتلایا گیا کہ اہلِ کتاب خود گمراہ ہیں، اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں اور حق کوباطل سے ملاتے ہوئے حق کو چھپاتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ سید عالمﷺ بنی برحق ہیں۔
اہل کتاب میں دو قسم کے لوگوں کا بیان کیا گیا، امین اور خائن اور بعض اللہ تعالیٰ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھتے ہیں۔ تیسرے پارے کے آخری رکوع میں سید انبیاؑ محمد مصطفیﷺ کی نسبت تمام انبیاؑء سے عہد لینے اور پھر انبیاؑء کا اپنی اپنی قوم سے عہد لینے کا بیان ہے کہ جب وہ مبعوث ہوں تو ان پر ایمان لائیں اور آپ کی نصرت و مدد میں ساتھی بنیں اور جو اسلام کے علاوہ کوئی دین چاہے گا وہ قبول نہ ہوگا اور جو ایمان لاکر کافر ہوئے تو انکی توبہ قبول نہیں ہوگی، وہ کافر ہی مریں گے اور انکے لیے دردناک عذاب ہے۔
چوتھے پارے کا آغاز انفاق فی سبیل اللہ اور اپنا پسندیدہ و محبوب مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب سے ہوتا ہے کہ یہی کمال تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ اسکے بعد کھانے پینے کی چیزوں کے حلال و حرام ہونے بارے میں بتایا گیاہے۔ کعبتہ اللہ کا بیان کرتے ہو اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ سب سے پہلا گھر اللہ کی عبادت کے لیے جو زمین پر بنایا گیا وہ خانہ کعبہ ہے اور اسمیں اللہ کی معرفت کی کافی نشانیاں ہیں اور جو استطاعت رکھے تو وہ ضرور اس گھر کا حج کرکے امن حاصل کرے ااور جو ایسا نہ کرے تو وہ ناشکرا ہے اور خیر سے دور ہے۔
اہل ایمان کو اللہ سے ڈرنے، ایمان پر ڈٹے رہنے، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے، فرقوں سے بچنے اور مسلمان مرنے کی تلقین فرمائی۔ قیامت کے دن اہل ایمان کے چہرے اللہ کی رحمت سے روشن جبکہ نافرمانوں اور کفار کے چہرے کالے ہوں گے۔ امتِ محمدیہ ﷺ کو سب امتوں سے بہتر قرار دیا گیااور حکم دیا کہ تم میں سے ایک جماعت امربالمعرف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتی رہے۔ جنگ اُحد کا اجمالی واقعہ بیان فرمایانبی کریمﷺ 15شوال مقامِ اُحد پہنچے، حضورﷺ نے عبداللہ بن جبیر کو 50 تیر اندازوں کے ساتھ پہاڑ پر مامور فرمایااور حکم دیا کہ یہاں سے نہ ہٹناخواہ فتح ہو یا شکست۔
جنگ کے دوران عبداللہ بن اُبی منافق 300 منافقین کو لے کر بھاگ گیا اور 700 اصحاب آقاﷺ کے ساتھ رہ گئے جو آخر تک ثابت قدم رہے۔ پہاڑ پر مامور صحابہ فتح دیکھ کر مشرکین کے پیچھے پڑگئے اور اپنی جگہ چھوڑ دی اور ہز میت اٹھانی پڑی اور فتح شکست میں بدل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ جب تم نے بدر میں اللہ اور اسکے رسول کی فرمابرداری کی تو تمہیں اس برکت سے فتح ہوئی اور اُحد میں مشرکین پلٹ کر تم وار کیا کیونکہ تم نے رسول اللہﷺ کے حکم کی مخالفت کرڈالی۔
چوتھے پارے کے ربع سے نصف (آلِ عمران کے اختتام) تک سود کی ممانعت اور حرامِ قطعی اور اس سے بچنے، اللہ و رسول کی اطاعت کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ جنت کے مستحق کون لوگ ہوں گے انکی خصوصیات بیان کی ہیں متقی، نفاق فی سبیل اللہ کرنے والے، غصہ پینے والے، لوگوں کو معاف کرنے والے، گناہوں سے توبہ کرنے والے اور اچھے عمل کرنے والے ہیں۔ واضح طور پر فرمایا ہے تم کیسے یہ گمان کررہے ہو کہ آزمائش کے بغیر جنت میں چلے جاؤگئے؟ عنقریب اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو اجر دے گااور وہ انعام یافتہ لوگوں میں سے ہوں گے۔
غزوہ اُحد کے بعد ایک اور غزوے کا بیان ہے جس میں مسلمانوں نے حضورﷺ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے بھرپور کامیابی حاصل کی، کافر بھاگ گئے اور اس مقام پر مسلمانوں کو خرید و فروخت سے اچھا منافع ہوا۔ مسلمانوں کے حوصلے بڑھے اور اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ جب اللہ تماری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین پر اپنا احسان جتلایا کہ ہم نے انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک صاف کرتا ہے اورانہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ لوگ جو آقاﷺ کے ساتھ جنگ میں ڈٹے رہے اور شہید ہو گئے انکے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ "جو اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں مردہ نہ خیال کرنابلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور روزی پاتے ہیں"۔
اللہ تعالیٰ کلمہ گویانِ اسلام کا حامی و ناصر ہے اور ان سے گند (منافقین) کو دور کرتا ہے اس لیے نبی کریمﷺ کو تمام احوال (اللہ کی عطا سے) غیب پر مطلع فرما کر مومن و منافق کع ممتاز کردیا۔ بخیل اور بخل پر وعید سنائی کہ وہ جس میں بخل کیا تھا وہ قیامت میں ان کے گلے کا طوق ہوگااور اکثر مفسرین نہ یہاں بخل سے زکوۃ نہ دینا مراد لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کا محتاج ہے اور جو آپﷺ کی تکذیب کرتے ہیں اور انبیاء کو قتل کرتے ہیں انکے لیے دردناک عذاب ہے اور تمہیں قیامت میں پورے پورے بدلے ملیں گے۔ دنیا کے زندگی تمہارے لئے دھوکہ ہے اور بے شک تمہاری آزمائش ہوگی تمارے مالوں اور تمہاری جانوں سے اور علم دین کو چھپانا منع کیا گیااور جو ایسا کرے گا اسے روزِ قیامت آگ کی لگام لگائی جائے گی۔
آسمانوں اور زمینوں کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور بیشک آسمانوں او رزمینوں کی پیدائش میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ او ر جن لوگوں نے اللہ کے دین کی خاطر ہجرت کی، اللہ کی راہ میں مارے گئے ضرور ان کے سب گناہ اتار لیے جائیں گے اور انہیں باغوں میں لے جایا جائے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں اور اللہ کے پاس ان کا اچھا ثواب ہے۔ سورۃ آلِ عمران کی آخری آیت میں ایمان والوں کو استقامتِ دین، آزمائش ومشکلات اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت و نگہبانی پر دشمنوں کے مقابلے میں زیادہ صبر کرنے کی تقلین فرمائی ہے اور یہی اصل کامیابی ہے۔