Monday, 31 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Khulasa e Quran, Barhvi Nimaz e Taraweeh

Khulasa e Quran, Barhvi Nimaz e Taraweeh

خلاصہِ قرآن، بارہویں نمازِ تراویح

آج کی تراویح کا آغاز تیرہویں پارہ اور سورۃ یوسف کی آیت نمبر 53 سے ہو رہا ہے جس میں حضرت یوسفؑ خودبینی اور خود پسندی (فخروکمال) شائبہ سے بچنے کے لیے عرض کررہے ہیں کہ "اور میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں بتاتا، بیشک نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے، بے شک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔ حضرت یوسفؑ کی معصومیت ثابت ہونے کے بعد بادشاہ نے انکو اپنے خاص عزت والے بندوں میں شامل فرما لیا پھر آپ نے فرمایا کہ سلطنت کے سارے خزانے میرے سپرد کردے بے شک میں انکی حفاظت والا اور ان کے مَصارف کو جاننے والا ہوں۔

ایک سال گزرنے کے بعد بادشاہ نے آپ کی تاج پوشی کی، تلوار اور مہر پیش کی، تخت نشین کیا، ملک آپ کے سپرد کیا، عزیز مصر کو معزول کرکے آپ کو والی بنا دیا، تمام خزانے اور امورِ سلطنت آپ کے حوالے کرکے آپ کا فرمانبردار ہوگیا اور آپ کا ہر حکم مانتا۔ حضرت یوسفؑ نے امورِ حکومت بہت احسن انداز میں چلائے جس سے مصر کی معیشت انتہائی مضبوط ہوگئی۔ خوشحالی کے سات سالوں میں آپ نے بہترین حکمت سے زرعی نظام کو مضبوط کیا اور قحط سالی میں غلے کے لیے قافلے مصر پہنچنا شروع ہوگئے۔ اسی دوران آپ کے بھائی بھی مصر داخل ہوئے اور آپ ان کو پہچان گئے مگر وہ آپ کو نہ پہچان سکے۔ آپ نے انھیں اگلی بار بنیامین کو بھی ساتھ لانے کا کہا جو کہ آپ کے سگے بھائی تھے۔ غلے کی ساتھ ان کی بوریوں میں ان کی رقم بھی واپس ڈال دی تاکہ قحط کے زمانے میں انکے کام آسکے۔

حضرت یعقوبؑ کے پاس پہنچ کر بیٹوں نے عزیز مصر کی بہت تعریف کی اور اگلی بار بنیامین کو ساتھ لانے کی عزیز مصر کی خواہش بھی بتائی۔ یعقوبؑ نے ان کی نصیحت کی کہ بنیامین کی حفاظت کرنا اور مصر میں الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا کہ کہیں نظر نہ لگ جائے۔ جب اگلی بار سب مصر پہنچ گئے تو حضرت یوسفؑ نے بنیامین کو علیحدہ کرلیا اور ان کو بتا دیا کہ میں آپ کا بھائی یوسف ہوں۔ بادشاہ کے سونے سے بنا پیالہ (جس میں وہ پانی پیتا تھا) اپنے تدبیر و حکمت سے بنیامین کی بوری رکھوا دیا، جب انبار خانے میں کام کرنے والوں کو پتا چلا کہ پیالہ نہیں ہے تو وہ قافلے کے پیچھے دوڑے، سامان کی تلاشی لی گئی اور پیالہ بنیامین کے بوری سے برآمد ہوگیا (یہ سب بنیامین کے مشورے سے ہوا جس میں کسی قسم کا جھوٹ اور چوری کا بہتان نہیں لگایا گیا)۔

کچھ عرصہ بعد جب بھائی دوبارہ مصر واپس آئے تو حالات بہت بدلے ہوئے تھے اور انھوں نے اپنی غربت کی شکایت کی۔ آپ نے دورِ جاہلیت میں ان سے بھائی کے ساتھ معاملہ کا پوچھا تو وہ سب حیران ہو گئے اور آپ نے ان کے استفتار پر بتا دیا کہ میں یوسف ہوں۔ حضرت یعقوبؑ دونوں بیٹوں کی جدائی میں اتنے روئے کہ ان کی بینائی چلی گئی۔ آپ نے بھائیوں کو اپنا کرتا دیا کہ والد چہرے پر ڈالنا جس سے انکی بینائی ٹھیک ہو جائے گئی (یہ کرتا جبرئیلؑ نے آپ کو عطا کی جب آپ کنویں میں تھے اور اس سے سارا کنواں روشن ہوگیا اور یہی کرتا ابراہیمؑ نے پہنا جب وہ نمرود نے ان کو آگ میں ڈالا)۔

بیٹے واپس گئے، کرتا چہرے پر ڈالا، بینائی واپس آگئی، بیٹوں نے معافی مانگی اور سب اہل خانہ مصر روانہ ہوگئے اور جب مصر پہنچے تو ماں باپ کو تخت پر بیٹھایا جبکہ سب بھائی یوسفؑ کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے (پہلی شریعتوں میں سجدہِ تعظیمی جائز تھا اور اب منع ہے) پس حضرت یوسفؑ کا خواب سچا ہوگیا۔ آیت نمبر 101 میں آپ نے اللہ کا شکران الفاظ میں شکر ادا کیا "اے میرے رب بے شک تُونے مجھے ایک سلطنت دی اور مجھے کچھ باتوں کا انجام نکالنا سیکھایا۔ اے آسمانوں اور زمین کے بنانے والے تو میرا کام بنانے والاہے۔ دنیا اور آخرت میں مجھے مسلمان اٹھا اور ان سے ملا جو تیرے قربِ خاص کے لائق ہیں"۔

آیت نمبر 102 میں اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کو فرماتا ہے "یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جس کی ہم تیری طرف وحی کررہے ہیں، تو تُو ان کے پاس نہ تھا جب کہ انھوں نے اپنی بات ٹھان لی تھی اور وہ فریب کرنے لگے تھے"۔ سورہ یوسف کے اختتام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ "ان کے قصوں میں عقل والوں کے لیے یقیناََ عبرت اور نصیحت ہے، یہ قرآن جھوٹ بنائی ہوئی بات نہیں بلکہ یہ تصدیق ہے ان کتابوں کی جو اس سے پہلے کی ہیں اور کھول کھول کر بیان کرنے والی ہے ہرچیز کی اور ہدایت و رحمت ہے ایمان دار لوگوں کے لیے"۔ پیارے آقا کو تسلی دی اور کفار و مشرکین کو تنبیہ کی گئی کہ تم میرے نبی کو تکلیف دینے سے باز آ جاؤ ورنہ تمہارا انجام ویسا ہی ہوگا جیسا پچھلی امتوں کا ہوا۔

سورۃ الرعد مدنی سورت ہے جو ترتیبِ توفیقی میں 13 اور ترتیبِ نزولی میں 96 نمبر پر ہے اسمیں کل 6 رکوع اور 43 آیات ہیں۔ "رعد"بادلوں سے پیدا ہونے والی گرج کو کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک بادلوں پر معمور فرشتے کا نام رعد ہے اور یہ سورہ کی آیت نمبر 13 میں آیا ہے۔ اس سورہ میں توحید، رسالت اور آخرت پر گفتگو ہوئی ہے۔ سورہ کا آغاز حقانیتِ قرآن سے ہوتا ہے اور اللہ رب العزت فرماتا ہے "یہ ہیں قرآن کی آیتیں اور جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اتارا جاتا ہے سب حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے"۔ اسکے بعد اللہ تعالیٰ اپنی کارگری اور قدرت کی نشانیوں کے بیان فرماتا ہے کہ میں نے بغیر ستونوں کے آسمان کو قائم رکھا ہوا ہے، سورج اور چاند کا اپنا ایک الگ نظام ہے، زمین ہموار اور پھیلی ہوئی ہے، پہاڑ لنگر کی طرح قائم ہیں، دن اور رات کا نظم قائم ہے، دریاں رواں ہیں اور طرح طرح کے پھل اور میوہ جات تمہارے لیے پیدا کئے ہیں۔

مزید ارشاد فرمایا کہ میں اپنی قدرت سے جانتا ہوں کہ مادہ کے پیٹ میں کیا ہے اور کسی کا بچہ جلد پیدا ہوگا اور کس کا دیر میں اور میں ہی ہر چھپے اور ظاہر کا جاننے والا، بلندی والا ہوں۔ آدمی کے لیے بدلی (دن اور رات) والے فرشتے ہیں اسکے آگے اور پیچھے جو بحکمِ خدا اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہر چیز اللہ سبحانہ کی تسبیح و تمحید کرتی ہے چاہے وہ بارش سے بھرے بادل ہوں، بجلی کی چمک یا کڑک ہو حتیٰ فرشتے بھی خوف و ڈر سے اللہ کی حمد کرتے ہیں۔ اللہ جسے چاہے رزق عطا کرتا ہے مگر کافر دنیا کی زندگی پر اترا گئے اور دنیا کی زندگی آخرت کے مقابل نہیں مگر کچھ دن کی برت لینا۔ آیت نمبر 31 میں فرمایا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے، وہ آ رکر رہے گابے شک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے دلوں کے اطمینان کے لیے نسخہ دیا کہ بے شک دلوں کا سکون اللہ کے ذکر ہی میں ہے۔ سورہ کے آخر میں کفار کی مذمت فرما کر انکے جھوٹ کارد اس طرح کیا "اور کافر کہتے ہیں تم رسول نہیں، تم فرماؤ اللہ گواہ کافی ہے مجھ میں اور تم میں اور وہ جسے کتاب کا علم ہے"۔

سورۃ ابراھیم مکہ میں نازل ہوئی، بمطابق ترتیبِ توفیقی 14 جبکہ ترتیبِ نزولی میں 72 نمبرہے، اس میں کل 7 رکوع اور 52 آیات ہیں۔ اس سورہ کی آیت نمبر 35 تا41 میں حضرت ابراہیمؑ کا واقعہ اور آپ سے منسوب دعائیں ہیں جو کہ اس سورہ کے نام کی وجہ بنا۔ سورہ کا آغاز قرآن کریم کی حقانیت، فضیلت اور مقصدِ نزول کے بیان کے ساتھ اسے کفر و شرک سے روشنی کی طرف رہنمائی کرنے والی کتاب بتایا گیا ہے۔ اے نبی یہ عظیم الشان کتاب ہم نے تیری طرف اتاری ہے۔ یہ کتاب ساری کتابوں سے اعلیٰ، رسول تمام رسولوں سے افضل وبالا، جہاں اتری وہ جگہ تمام جگہوں سے بہترین اور عمدہ ہے۔ ہر رسول جو بھیجا گیا وہ اُسی قوم کی زبان بولنے والا تھا تاکہ اللہ کے احکامات واضح طور پر بیان کر سکے اور لوگوں پر اللہ کی حجت تمام ہو۔

آیت نمبر13 تا 21کافروں کا اپنے رسولوں سے برتاؤ و سرکشی، ان کے اعمال اور ان پر عذاب کا بیان کے ساتھ قومِ نوح، قومِ عاد اور قومِ ثمود کا دوبارہ ذکر کیا۔ کافروں کے اعمال کی مثال راکھ کی طرح ہے جسے سخت آندھی اڑا لے جائے۔ ہر سرکش و ہٹ دھرم نامراد ہوا، جہنم اس کے پیچھے ہے اور اسے پیپ کا پانی پلایا جائے گا۔ سب اللہ کے حضور اعلانیہ حاضر ہوں گے، کمزور اپنے بڑوں سے کہیں گے ہم دنیا میں تمہاری پیروی کرتے تھے کیا تم ہمیں اللہ کے عذاب سے نجات دلانے میں کام آسکتے ہو؟ وہ کہیں گے ہمیں خود کوئی چھڑانے والا نہیں اور شیطان بھی ان سے منہ پھیر لے گا اور کہے گا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے جس کو تم نے رَد کیا اور میرے جھوٹے وعدے کا مانا جبکہ میرا تم پر قابونہ تھا اب مجھ پر الزام نہ رکھو خود اپنے اوپر الزام رکھو۔ ایمان اور کفر کی مثال دی گئی کہ جس طرح کجھور کی جڑیں زمین کی گہرائی میں موجود ہوتی ہیں جبکہ شاخیں اور پھل باہر تو اسی طرح کلمۂِ ایمان ہے کہ اسکی جڑ مومن کے دل، شاخیں (عمل)آسمان پر اور پھل (برکت و ثواب) ہر وقت ملتارہتا ہے۔ آیت نمبر 31 میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نماز قائم رکھیں، ہمارے دیے ہوئے سے ہماری راہ میں خرچ کریں (چھپے اور ظاہر) اس دن کے آنے سے پہلے جس دن نہ کوئی سوداگری ہوگی نہ یارانہ۔

حضرت ابراہیمؑ اور بی بی ہاجرہؓ کا واقع آیت نمبر37 سے ذکر ہوا جب وہ بی بی صاحبہ اور حضرت اسماعیلؑ مکہ کی بے آب و گیاہ زمین میں چھوڑ آئے تو بوقتِ رخصت اللہ تعالیٰ سے دعا کی "اے ہمارے پروردگار میں نے اپنی اولاد اے بے کھیتی کے جنگل میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی۔ اے ہمارے پروردگار یہ اس لئے کہ وہ نماز قائم رکھیں۔ پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو انکی طرف مائل کردے اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرماتاکہ یہ شکرگزاری کریں۔ اے ہمارے پروردگار تو خوب جانتا ہے جو ہم چھپائیں اور جو ہم ظاہر کریں، زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ پر پوشیدہ نہیں۔ اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیل و اسحاق عطا فرمائے، کچھ شک نہیں کہ میرا پالنہار اللہ دعاؤں کا سننے والا ہے۔ اے میرے پالنے والے مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد سے بھی، اے ہمارے رب میری دعا قبول فرما۔ اے ہمارے پروردگار مجھے بخش دے، میرے ماں باپ کو بخش اور دیگر مومنوں کو بھی بخش جس دن حساب ہونے لگے"۔

آخری آیات میں ظالموں کا بیان ہے کہ جس دن خوف سے ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گیں اس دن وہ عرض کریں گے ہمیں کچھ مہلت دے، ہم تیرے پیغام و قبول کریں، رسول کی پیروی کریں۔ اللہ پاک فرمائے گا کیا اس سے پہلے تم نے قسمیں نہیں کھائیں تھیں؟ تم اپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے اور ہم نے تمہارے لیے مثالیں بیان کردی تھیں۔ تم اللہ کو اپنے رسولوں سے کیے ہوئے وعدے کے خلاف کرنے والانہ سمجھو کہ اس نے اپنے رسولوں سے وعدہ کیاہے کہ جو تم کو تکلیف پہنچائیں گے اللہ تعالیٰ ان کو دردناک عذاب دے گا۔

سورہ الحجرمکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اس میں 6 رکوع اور99 آیات ہیں جس کا ترتیبِ توفیقی میں 15 جبکہ ترتیبِ نزولی میں 54 نمبر ہے۔ پہلی آیت میں قرآن کریم کی آیتوں کے واضح اور ہر شخص کی سمجھ میں آنے کے قابل ہونے کا بیان فرمایا گیا ہے۔

Check Also

Awam Ki Hard State

By Saira Kanwal