Khulasa e Quran, Aathwi Nimaz e Taraweeh
خلاصہِ قرآن، آٹھویں نمازِ تراویح

آج کی تراویح کا آغاز نویں پارہ اور سورۃ اعراف کی آیت نمبر 88 سے ہوتا ہے جس میں قومِ مدین کے سرکش سرداروں کا حضرت شعیبؑ کو دھمکی کا ذکر ہے کہ اگر آپ ہمارے خیالات کی طرف نہ لوٹے تو ہم آپکو دربدر کردیں گے۔ اہل ایمان نے جواب دیا کہ ہم اللہ کے فضل سے ایمان کی دولت سے سرفراز ہوئے ہیں تو اب کیونکر گمراہی کی طرف پلٹ سکتے ہیں۔ ان کی سرکشیوں کی وجہ سے بڑی شدت کا زلزلہ آیا اور سارے سرکش اور ان کی بستیاں نیست و نابود ہوگئیں۔ اگر وہ ایمان لاتے اور اللہ سے ڈرتے تو ہم انہیں زمین و آسمان کی نعمتیں عطا کرتے اور سرکشوں کو اللہ کی خفیہ تدبیر سے نڈر نہیں ہونا چاہیے۔ ہم گزشتہ امتوں کا حال اے محبوب اس لیے سناتے ہیں کہ ہم نے اکثر کو بے حکم ہی پایااور سزا دی۔ اس واقع کو بیان کرنے کا مقصود رسول اللہ کو کفار و مشرکین کی ایذا رسانیوں پرتسلی دینا اور سرکشوں کو عبرت دلانا ہے۔
آیت نمبر 103 سے 171 میں قومِ فرعون اور حضرت موسیٰؑ کا واقع بہت ہی تفصیلی سے بیان کیا گیا۔ حضرت موسیٰؑ کو اللہ تعالیٰ نے 120 سال کی عمر عطا کی اور چوتھی پشت میں حضرت یعقوبؑ سے جا ملتے ہیں اور یعقوبؑ کی ساری اولاد کو حضرت یوسفؑ نے مصر بلایا لیا تھا۔ حضرت یوسفؑ کے بعد مصر کے بادشوہوں نے بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا لیا تھا۔ مصر کے تمام بادشاہوں کو فرعون کہا جاتا تھا اور ان کے ایک بادشاہ "منفتاح"نے خدائی کا دعویٰ کر دیا جس کی عمر 640 سال تھی۔ حضرت موسیٰؑ نے فرعون کو دعوتِ حق دی، اسے واضح نشانیاں بتلائیں اور بنی اسرائیل کو آزادکرنے کا کہا۔
فرعون نے موسیٰؑ کو معجزات پیش کرنے کا کہا، آپ نے عصا زمین پر ڈالا تو وہ اژدھا بن گیا، ہاتھ گریبان سے نکالا تو چمکنے لگا مگر وہاں موجود فرعون کے سرداروں نے اسے جادو قرار دیا اور حق کو جھٹلایا۔ فرعون کے جادوگروں نے موسیٰؑ کا مقابلہ کرنے کا کہا مگر موسیٰؑ کے اژدھا نے ان سب کی چیزوں کو کھانا شروع کر دیا، فرعون کے جادوگروں کا بطلان ہوگیا، حق واضح دیکھ کر جادوگر سجدے میں گر گئے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئے۔
فرعون کو غصہ آگیا، دھمکی دی کہ تمہارے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمت کاٹ دوں گا اور تمہیں سولی پر چڑھا دوں گا۔ قومِ فرعون پر قحط سالی، ٹڈیوں، جوؤں، منیڈکوں اور خون کا عذاب آیا، وہ اچھی چیزوں کو اپنی طرف منسوب کرتے اور برائی کو موسیٰؑ کی طرف منسوب کرتے تھے۔ پھر موسیٰؑ سے دعا کرواتے کہ ہم پر سے عذاب ٹل جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں مگر جب عذاب ٹل جاتا تو وہ اپنے وعدے سے مکر جاتے، آخر کار اللہ تعالیٰ نے انہیں سمندر میں غرق کر دیا۔
سمندر پار جاکر بنی اسرائیل بت پرستی میں مبتلا ہو گئے، موسیٰؑ نے انہیں اس سے منع کیا مگر وہ باز نہ آئے۔ موسیٰؑ اپنے بھائی ہارونؑ کو جانشین بنا کر اللہ کا جلوہ دیکھنے کوہِ طور پر گئے جو چالیس دن کا عرصہ ہے۔ مگر وہ رب کا جلوہ نہ دیکھ سکے، کوہِ طور اللہ کی تجلی سے ریزہ ریزہ ہوگیا اور موسیٰؑ بیہوش ہو گئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ کو رسالت دے کر کلیم اللہ کا منصب عطا فرمایا اور تورات نازل کی۔ جب موسیٰؑ کوہِ طور پر موجود تھے تو قوم نے (سامری نے) پیچھے زیوارات سے بچھڑا بنا کر اسے معبود بنا لیا۔ موسیٰؑ کو بہت غصہ اور افسوس ہوا، اپنے بھائی ہارونؑ کو طلب کیا اور انکو سر کے بالوں سے پکڑا کہ تم نے میرے پیچھے ایسا برا کام کیا۔ ہارونؑ نے سارا واقعہ بیان فرما دیا کہ یہ مجھے قتل کے درپے تھے، آپ مجھ پر سختی نہ کریں اس سے دشمن خوش ہو رہے ہیں۔
بنی اسرائیل قدم قدم پر احکاماتِ خداوندی کا مذاق اڑاتے اور اس میں تاویل و تحریف کرتے تھے۔ جب انہیں کہا گیا کہ بستی میں سر جھکا کر داخل ہو تو وہ سر اُٹھا کر اور سرین کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے، کہا گیا کہ ہفتے کے دن اللہ کی عبادت کے سوا کچھ اور نہ کرو تو وہ حیلے بہانے سے مچھلی کا شکار کرنے لگے، تورات پر عمل کے وعدے کا پس نہ رکھا۔ موسیٰؑ نے اپنی قوم کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگی، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو یہ نعمت عطا کی جو کامل ایمان والے اور تقویٰ والے ہوں گے، زکوۃ دیں گے، آخری رسول نبی اُمی کی پیروی کریں گے جو انہیں نیکی کو حکم دے گا اور برائی سے روکے گا۔ سو جن لوگو نے اُن کی تعظیم و نصرت کی اور اس نورِ ہدایت کی پیروی کی جو اُن کیساتھ نازک ہواتو وہی اصل میں فلاح پانے والے ہیں۔
آیت نمبر 172 میں مشہور عہد "عہد الست" کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کی نسل میں سے قیامت تک آنے والے انسانوں کی روحوں کو اکٹھا کرکے فرمایا: "کیا میں تمہارا رب نہیں؟ سب بولے کیوں نہیں، ہم گواہ ہوئے کہ کہیں قیامت کے دن کہو کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی"۔ مقصود یہ تھا کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں یاد نہیں تھا، یہ شرک ہمارے باپ داد سے ہمیں ملا اور جیسے انہیں دیکھا ان کی اتباع و اقتداء میں ویسا ہی کرتے رہے، پس انکا عذر اور عجت ختم کر دی گئی۔
آیت نمبر 176 میں بنی اسرائیل کے ایک شخص بلعم بن باعورہ کا ذکر کیا جسے اللہ تعالیٰ نے علم و کرامات سے نواز تھا، اس کے پاس اسمِ اعظم تھا اور جو دعا کرتا وہ پوری ہو جاتی۔ جب موسیٰؑ نے جنگ جبارین کا قصد کیا تو شام کے علاقے میں گئے اور قوم بلعم بن باعورہ کے پاس آئی کہ آپ دعا کریں کہ موسیٰؑ واپس چلے جائیں مگر باعورہ نے یہ کہہ کر دعا نہ کی کہ وہ نبی ہیں، میں کیوں اپنی آخرت خراب کروں مگر قوم بضد تھی اور اسکے آگے گڑگڑا رہی تھی۔ باعورہ کا معمول تھا کہ وہ دعا سے پہلے رب کی اجازت چاہتا اور خواب میں اسے جواب مل جاتا مگر اس بارے اسے منع کیا گیا کہ موسیٰؑ کے ہمراہیوں کے خلاف دعا نہ کرنا۔
یہ سب اس نے اپنی قوم کو بتا دیا تب قوم نے اسے ہدیے اور نذرانے دئے تو بدقسمتی سے اس پر شیطان نے غلبہ پایا، مال و دولت کی حرص کی وجہ سے وہ پستی میں گر گیا۔ دعاکے لیے وہ پہاڑ پر چڑھ گیا جب وہ بدعا کرتا تو اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سے وہ اسکی قوم کی طرف پھیر دیتا اور جب اپنی قوم کے لیے دعائے خیر کہتا تو بنی اسرائیل کا نام زبان پر آجاتا۔ قوم اسکو روکتی اور ٹوکتی مگر وہ جواب دیتا کہ میری زبان میرے قبضے میں نہیں ہے آخر وہ کتے کی شکل کا ہوگیا۔
نیک سیرت لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ حق کی نصیحت کرتے ہیں اور ایسے بھی لوگ ہیں جو حق کو جھٹلاتے ہیں اور بتوں کو اپنا معبود بناتے ہیں پس جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں اور وہ انہیں ڈھیل دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکا کریں۔ کفار و مشرکین آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ کب آئے گی تو آپ کہہ دیں کہ اسکا علم میرے رب کے پاس ہے جو اُسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا۔ سارے کا سارا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے مگر بہت لوگ نہیں جانتے، میں اپنی جان کے بھلے برے کا خود مختیار نہیں مگر جو اللہ چاہے اوراگر میں غیب لیا کرتا تو یوں کرتا کہ میں بہت اچھی اچھی چیزیں خوب جمع کر لیتا اور مجھے کچھ تکلیف نہ پہنچتی۔ پھر فرمایا اے محبوب معاف کرنا اختیار کرو، بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منھ پھیر لو۔ سورۃ الاعراف کی آخری آیات میں قرآن کریم کی فضیلت بیان کی گئی کہ جب قرآن پاک پڑھا جائے تو خاموشی سے سننا ضروری ہے، صبح و شام اللہ کا یاد کرو اور جو اللہ کے مقرب بندے ہیں وہ عاجزی کے ساتھ رب کو یاد کرتے ہیں تسبیح و تحلیل کرتے ہوئے۔ (اس سورت کے آخر میں آیت قرآن کریم کا پہلا سجدہ ہے اور جو شخص آیت سجدہ کی عربی پڑھے یا سنے گا اس پر سجدہ کرنا واجب ہے)۔
سورۃ الانفال مدنی سورت ہے ماسوائے سات آیتوں کے وہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں اور یہ 10 رکوع، 75 آیتوں پر مشتمل ہے۔ انفال نَفَل کی جمع ہے اور اسکے معنی زیادتی(کثرت) کے ہیں، شرعی طور پر اسے مال کو کہا جاتا ہے جو جنگ کے بعد دشمن سے حاصل کیا جاتا ہے، اسے مالِ غنیمت کہتے ہیں۔ یہ سورت شروع ہی مالِ غنیمت کے احکامات سے شروع ہوتی ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ مالِ غنیمت اللہ اور اسکے رسول کا ہے۔ مومنوں کی ظاہری و باطنی کیفیات کا ذکر ہے کہ وہ اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں، اخلاص کے ساتھ نمازیں قائم کرتے ہیں۔ اللہ کا ذکر سن کر ڈر جاتے ہیں، قرآن کریم کی آیات سن کر ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور انکے درجات بقدر انکے درجات جداجدا ہیں۔ اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کے متعلق امور ارشاد فرماتے ہوئے میدان جنگ میں پیٹھ دیکھانے سے منع کیا۔ پھر بدر کے مجاہدین اور ان کے لیے بھیجی گئی غیبی مدد کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اللہ کے نبی نے کافروں کی طرف خاک پھینکی جو انکی آنکھوں میں جا پڑی۔
آیت نمبر 20 میں ایمان والوں کو اللہ اور اسکے رسول کا حکم مانو اور منافقین و مشرکین کی طرح حق بات سن کر ان سے منہ نہ موڑنا کیونکہ رسول اللہ کی اطاعت ہی اللہ کی اطاعت ہے۔ اے ایمان والو اللہ و رسول سے دغا نہ کرو اور اپنی امانتوں میں دانستہ خیانت نہ کرو، جان رکھو کی تمہارے مال اور تمہارے اولاد سب فتنہ ہیں۔ آیت نمبر 30 میں فرمایا! اے محبوب یاد کرو جب کافر تمہارے ساتھ مکر کرتے تھے کہ تمہیں قید کر لیں یا شہید کر دیں یا جلاوطن کر دیں، وہ اپنا سا مکر کرتے تھے اور اللہ اپنی خفیہ تدبیر فرماتا ہے اور اللہ کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر ہے۔ آخر میں فرمایا اے مسلمانوں مشرکین مکہ سے اس وقت تک جنگ کرتے رہو جب تک فتنہ ختم کو کردین اسلام غالب نہ آ جائے۔ مشرکین کو دعوتِ اسلام دی گئی اور بشارت سنائی گئی کہ جان لو کہ اللہ تمہارا مولیٰ ہے تو کیا ہی اچھا مولا اور کیا ہی اچھا مددگار۔