Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rehmat Aziz Khan
  4. Witness Protection Act Ka Nifaz

Witness Protection Act Ka Nifaz

وٹنس پروٹیکشن ایکٹ کا نفاذ

پاکستان میں عدالتوں میں پیشی کے وقت گواہوں کے تحفظ کا معاملہ طویل عرصے سے تشویش کا باعث رہا ہے، خاص طور پر دہشت گردی کے مقدمات کے تناظر میں گواہ گواہی دینے سے ڈرتے ہیں، وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2014 میں نیشنل ایکشن پلان کے حصے کے طور پر نافذ کیا گیا تھا اور اس کے بعد اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے 2021 میں اس قانون کو اپ ڈیٹ کیا گیا تھا۔ یہ قانون سازی اور یہ اقدامات اقوام متحدہ کے کنونشنز سمیت بین الاقوامی ذمہ داریوں کے لیے پاکستان کی وابستگی کے جواب میں کیے گئے تھے جو فوجداری مقدمات میں گواہوں کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔

سندھ ہائی کورٹ میں حالیہ کیس گواہوں کے تحفظ کے ایکٹ پر عمل درآمد نہ کرنے کے جاری چیلنج کے بارے میں ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایکٹ گواہوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے اور اس پر عمل درآمد نہ ہونے سے سنگین نتائج برآمد ہوئے ہیں جن میں عزیر بلوچ جیسے ملزمان کو بری کرنا بھی شامل ہے۔ اس ایکٹ کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں۔

پاکستان مختلف بین الاقوامی کنونشنز کے دستخط کنندہ کے طور پر کسی بھی مقدمے پر گواہوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کا پابند ہے، جیسا کہ اقوام متحدہ کے کنونشنز میں بیان کیا گیا ہے۔ ایسا کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں ملک پر بین الاقوامی طور پر کڑی تنقید ہو سکتی ہے۔

گواہوں کے تحفظ کا ایکٹ پاکستان کے قومی ایکشن پلان کا ایک لازمی حصہ ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے اور انصاف کو یقینی بنانے کے لیے ملک کے عزم کو برقرار رکھنے کے لیے اس ایکٹ کا نفاذ انتہائی ضروری ہے۔

گواہوں کے تحفظ کی کمی نے انہیں عدالت میں گواہی دینے کے لیے آگے آنے کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ اس سے نہ صرف نظام انصاف متاثر ہورہا ہے بلکہ ملزمان کو بری ہونے کی اجازت بھی ملتی ہے، جس سے قانونی نظام پر عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔

اس معاملے میں درخواست گزار نے قومی ایکشن پلان کے مطابق گواہوں کے تحفظ کے بل، ایک مشاورتی بورڈ، اور پروٹیکشن آفیسرز کی تقرری کی درخواست کی ہے۔ یہ ایکٹ کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کی ضرورت اور اہمیت کی عکاسی کرتا ہے۔

درخواست میں سندھ کی وزارت داخلہ، صوبائی وزارت قانون، آئی جی اور پراسیکیوٹر جنرل سندھ کو شامل کرنا اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اجتماعی ذمہ داری کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ ایکٹ گواہوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مربوط کوششوں کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔

یہ ضروری ہے کہ گواہوں کے تحفظ کے ایکٹ کو بغیر کسی تاخیر کے مکمل طور پر نافذ کیا جائے۔ اس میں پروٹیکشن آفیسرز کی تقرری، ایک ایڈوائزری بورڈ، اور گواہوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے دیگر متعلقہ دفعات بھی شامل ہیں۔

اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے، قانونی پیشہ ور افراد، اور عوام اس ایکٹ سے آگاہ ہوں اور محفوظ گواہوں پر مشتمل مقدمات کو سنبھالنے کے لیے تربیت یافتہ ہوں۔

متعلقہ سرکاری محکموں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے تاکہ گواہوں کے تحفظ کے لیے ایک ہموار نظام بنایا جا سکے۔ قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے اور انصاف کے حصول میں گواہوں کے تحفظ کی اہمیت کے بارے میں شہریوں کو آگاہ کرنے کے لیے عوامی آگاہی مہم شروع کی جائے۔ گواہوں کے تحفظ کے اقدامات کی نگرانی کے لیے میکانزم قائم کیا جائے اور کسی بھی کوتاہی کے لیے ذمہ دار فریقوں کو جوابدہ ٹھرایا جائے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ گواہوں کے تحفظ کے ایکٹ کا نفاذ ایک قانونی مسئلہ ہے اور گواہوں کو تحفظ نہ دینے کی وجہ سے نظام انصاف متاثر ہوتا ہے، خاص طور پر دہشت گردی سے متعلقہ مقدمات میں گواہوں کے جان کی تحفظ انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان کے بین الاقوامی وعدوں کو برقرار رکھنے اور انصاف کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس ایکٹ کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں اور ساتھ ہی گواہوں کو ضروری مدد اور تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس سے نہ صرف قانون کی حکمرانی کو تقویت ملے گی بلکہ ایک محفوظ اور زیادہ انصاف پسند عدالتی نظام کو بھی فروع ملے گا۔

Check Also

Pasand Ki Shadi

By Jawairia Sajid