Sahib e Aqleem e Adab
صاحب اقلیم ادب
"صاحب اقلیم ادب" میواتی زبان و ادب کے منظر نامے میں ایک قابل ذکر تحقیقی کتاب کے طور پر ہمارے سامنے ہے، جو ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور دانشور شیر اخگر چوہدری میو کی زندگی اور خدمات پر تفصیل سے مرتب کی گئی ہے۔ لاہور میں سسٹم پبلی کیشنز کے ذریعے اس کتاب کو شائع کیا گیا ہے، یہ کتاب میو قبائل کی پائیدار میراث کو بھرپور انداز میں خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ کتاب کا انتساب کمال الدین سالار پوری اور ریاض رومانی کے لیے وقف کیا گیا ہے۔
کتاب کے مصنفین نواب ناظم اور احمد فہیم میو، اخگر چودھری میو کے ادبی سفر کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے والے مضامین کا ایک مجموعہ نہایت احتیاط سے پیش کرتے ہیں۔ کتاب میں نمایاں کردہ بنیادی موضوعات میں سے ایک میو صاحب کے کام کے تناظر میں رسم الخط کی اہمیت اور فوائد شامل ہیں جس میں آرٹ کی شکل کے طور پر اس کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں"صاحب اقلیم ادب۔۔ تالیف کرنے کی احتیاج؟" کے عنوان سے مولفین لکھتے ہیں" شیر محمد چوہدری المعروف اخگر میو ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے میو برادری میں جنم لیا اور پھر اپنے پدر محترم اور برادران کی نہج پر چلتے ہوئے حتی المقدور تعلیمی روشنی سے قلب و جگر منور کئے اور ثابت کر دیا کہ وہ ایک سکول ٹیچر کے بیٹے ہیں کیوں کہ ان کی زندگی کے حالات کی روشنی میں ان کا ہر قدم ان کی تعلیمی روشنی کی شہادت دیتا دکھائی دیتا ہے اور قدم قدم پر ان کی شخصیت میں پائے جانے والے علمی جو ہر کی جھلک ہر لمحہ اپنے وجود کا احساس دلاتی نظر آتی ہے ان کی شخصیت کا یہ پہلو بھی نا قابل فراموش ہے کہ نام ان کا شیر محمد چوہدری ہے اور ادبی دنیا میں اخگر تخلص کے باوجود ان کی شیرانہ اور شاعرانہ جدوجہد کی روشنی میں انہیں شیر ادب کا نام بھی دیا جا سکتا ہے کیوں کہ شیر محمد چوہدری فطری اور جبلی طور پر ادب، صحافت اور شعر و سخن کے میدان میں جو ہر قابل کے مقام پر ہیں۔
انہوں نے اپنی زندگی میں ادب اور صحافت کے عملی میدان میں ناقدانہ ادبی کاوش بھی کی، ماہنامہ میوات، لاہور سے نکالتے تھے جس میں میواتی برادری کے مسائل، پیغامات اور ادبی سماجی رابطے کے لئے بھی چند صفحات مختص تھے۔ اس طرح انہوں نے ماہنامہ میوات کے نام سے جو رسالہ نکالا اس میں میواتی برادری کے باشعور نو جوانوں کے لئے چند صفحات بھی علیحدہ مختص تھے جس سے انہیں تعلیمی ادبی صحافتی روشنی بھی میسر آتی تھی۔ کیوں کہ "ماہنامہ میوات" اسی نقطہ نگاہ کے پیش نظر نکالا تھا کہ وہ میواتی برادری کو بہر طور زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کی راہ پر دیکھنے کی توقع رکھتے تھے۔
نوجوانوں کے لئے مذکورہ رسالے میں ادبی نقطہ نگاہ سے ناول افسانہ اور دیگر ادبی کوائف کے لئے انفرادی سطح پر صفحات موجود تھے مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ "ماہنامہ میوات نے میو، نوجوانوں کو تحریکی سطح پر ایک ایسا مجلہ دیا جو روشن پیغام کی حیثیت سے پوری میوات کے لئے نا قابل شکست سنگ میل ثابت ہو رہا تھا۔ ان کے اس رسالہ میں شعر و شاعری کے علاوہ تعلیمی اور سیاسی سماجی اداروں اور تنظیموں کی کارکردگی کی رپورٹس اور عوامی بہتری کے لئے متعدد پروگرامز کی تشہیر بھی سامنے آتی تھی"۔
کتاب کا بیانیہ ذوقی مظفر نگری مرحوم کے ہنر کی بھی کھوج کرتا ہے، جو ان کی فنکارانہ شراکت کے بارے میں بصیرت انگیز معلومات پیش کرتا ہے۔ شیر محمد چودھری (اخگر میو) کی اپنی صحافتی خدمات کے ذریعے میواتی ادب کی بے مثال خدمات پر بحث خاص طور پر قابل ذکر ہے، جو اکثر غیر تسلیم شدہ ہے۔
مزید برآں کتاب اخگر میو کی ایک ناول نگار کے طور پر بھی ان صلاحیتوں کو بیان کرتی ہے، جس میں بیانیہ کہانی سنانے میں ان کی مہارت کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ ان کے ادارتی اور مضمون نگاری کا ایک مختصر تنقیدی تجزیہ بھی کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔
"رسم دنیا بھی، موقع بھی دستور بھی ہے" کی شمولیت میو کے تناظر میں سماجی اصولوں اور رسوم و رواج کی ایک فکر انگیز تحقیق فراہم کرتی ہے، جو اپنے اردگرد کی دنیا پر اس کے گہرے مشاہدات کو سمیٹتی ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ کتاب کا اختتام شیر محمد چوہدری کی شاعری پر ایک جامع نقطہ نظر اور اردو تراجم کے ساتھ ہوتا ہے، جسے احمد فہیم میو نے مہارت سے ترتیب دیا ہے۔ یہ حصہ میو کی شاعرانہ صلاحیت کو خراج تحسین پیش کرتا ہے اور اس کی زبان اور جذبات پر مہارت کا مظاہرہ کرتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ "صاحب اقلیم ادب" نواب ناظم میو اور احمد فہیم میو کی ایک قابل تحسین تحقیقی کاوش ہے، جس میں شیر چوہدری کی زندگی اور ادبی کارناموں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ میو کے کثیر جہتی کیریئر میں متنوع تناظر اور ادبی کاوشوں کو پیش کرتے ہوئے، یہ اشاعت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ میواتی زبان اور ادب میں ان کی انمول شراکت کو تسلیم کیا جائے اور ان کی سرکاری سطح پر تعریف اور ایوارڈ کی صورت میں پزیرائی کی جائے۔
یہ کتاب ادبی برادری میں میو کے پائیدار اثر و رسوخ اور تحریک کے ثبوت کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ میں مصنفین کو کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور میو برادری کے ہر فرد سے گزارش کرتا ہوں کہ ہر میو اور میواتی اس خوبصورت کتاب کو ضرور خریدے تاکہ اس معیار کی دیگر تصانیف میدان ادب میں آ سکیں۔