Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rehmat Aziz Khan
  4. Professor Rabia Batool Ki Shayari

Professor Rabia Batool Ki Shayari

پروفیسر رابعہ بتول کی شاعری

پروفیسر رابعہ بتول کی شاعری روحانی عکاسی اور سماجی و سیاسی تبصروں کا دلکش امتزاج پیش کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ آپ کے اشعار، اسلامی اخلاقیات میں گہری جڑیں رکھتی ہیں، اور لچک، جبر اور ایمان کے موضوعات سے بھر پور ہیں۔ اپنی فکر انگیز کمپوزیشنز کے ذریعے پروفیسر رابعہ بتول انسانی تجربے کا احاطہ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، جو افراد اور معاشروں کو یکساں طور پر درپیش جدوجہد کے بارے میں معلومات پیش کرتی ہیں۔

پروفیسر بتول کی شاعری روحانی طاقت کے ساتھ ساتھ مشکلات کو برداشت کرنے کا پیغام دیتی ہیں۔ "ظلم کے ساتھ مفاہمت نہیں، جبر کے ساتھ وفاداری نہیں" جیسی اشعار میں وہ ناانصافی کے خلاف ثابت قدم رہنے کی وکالت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ آپ کے اشعار کربلا کی روح کی عکاسی کرتی ہیں، آپ تاریخی مصائب اور عصری جدوجہد کے درمیان مماثلتیں کھینچتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ پروفیسر رابعہ بتول کے استعارے کا استعمال، جیسا کہ " نور سے چمکنے والی پیشانی" میں دیکھا گیا ہے، قربانی اور عقیدت کی واضح تصویر کشی کرتا ہے۔ یہ موضوعات ان قارئین کو زیادہ پسند ہوتی ہیں جو مصیبت کے وقت سکون اور الہام تلاش کرتے ہیں۔

شاعرہ کا کام معاشرتی مسائل پر تبصرہ کا کام بھی کرتا ہے۔ ناانصافی، جبر، اور لچک کے بارے میں نظم کی داستان ایک عالمگیر اپیل رکھتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر بتول کی شاعری نیک عمل کی دعوت دیتی ہیں، جو قارئین کو جبر کو مسترد کرنے اور سچائی کو برقرار رکھنے کی تلقین کرتی ہیں، جیسا کہ "کیا نثار سچائی کی راہ پر چلیں اور غیر مستحکم نہ ہوں" جیسی سطروں سے مثالیں ملتی ہیں۔ اپنی ناصحانہ شاعری کے ذریعے وہ حضرت امام حسین کی تعلیمات اور کربلا کے فلسفے کو اجاگر کرتی ہے، ظلم کے مقابلے میں انصاف اور ہمدردی کی وکالت کرتی ہیں۔

بتول اپنی نظموں میں افراد اور ان کے عقیدے کے درمیان گہرے تعلق کو بھی تلاش کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کی شاعری الٰہی قدرت کے لیے عقیدت اور آرزو کو خوبصورتی سے پکڑتی ہیں، جیسا کہ "ہر دل کو مائل کرنے والے رب کی طرف" جیسی شاعری میں بیان کیا گیا ہے۔ الہٰی کمال کی تلاش کی منظر کشی ان قارئین کو پسند آئے گا جو گہرے روحانی تعلق کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری کا یہ عقیدتی پہلو قارئین کو اطمینان اور سکون کا احساس فراہم کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

پروفیسر بتول اپنی غزلوں میں پیچیدہ جذبات اور بکھرے خیالات کو بڑی مہارت سے بیان کرتی ہیں۔ آپ کی اکثر شاعری روحانیت کے بارے میں اس کے فکری نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ نفس کی اس کی جذباتی تلاش کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔ غزلیں ذاتی جدوجہد اور فتوحات کے اظہار کے لیے ایک ہتھیار ہیں، جو قارئین کو شاعرہ کی اندرونی دنیا کی ایک جھلک پیش کرتی ہیں۔ پناہ کی تلاش، ذاتی ترقی، اور الٰہی فہم کی جستجو کے موضوعات کو ان کمپوزیشن کے تانے بانے میں مہارت کے ساتھ بُنا گیا ہے۔

پروفیسر رابعہ بتول کی شاعری روحانی اور سماجی رشتوں کے درمیان ایک پل کا کام کرتی ہے، جو قارئین کو ذاتی اور اجتماعی جدوجہد دونوں پر ایک عکاس اور تنقیدی تناظر پیش کرتی ہے۔ اس کی شاعری لچک، انصاف اور لگن کا راستہ روشن کرتی ہیں، لوگوں کو اٹل ایمان کے ساتھ چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ آپ کی شاعری اپنے دلکش الفاظ کے ذریعے قارئین کو اپنے سفر پر غور کرنے کی ترغیب دیتی ہے، شاعرہ اپنے اردگرد کی دنیا کی پیچیدگیوں کو نیویگیٹ کرتے ہوئے اپنی روحانیت سے طاقت حاصل کرتی ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے پروفیسر رابعہ بتول کی شاعری سے اقتباس پیش خدمت ہے۔

***

درِ قسیمِ نِعم کے فقیر ہم بھی ہیں
بھرے ہیں کاسے ہمارے، امیر ہم بھی ہیں

نگاہِ مہر وعنایت ہو اک، شب غم پر
مہِ مبیں! ترے منّت پذیر ہم بھی ہیں

جو بے نیازِ غمِ دوجہاں سے کرتا ہے
لیے ہوئے وہ غمِ دلپذیر ہم بھی ہیں

اگر کہو تو لحد میں سنا دیں نعت انکی
مدیحِ آقا، اے منکر نکیر ہم بھی ہیں

گزر رہی ہے سہارے پہ اُن کے، جنکی حیات
گدائے کوچہء جاناں ! نظیر ہم بھی ہیں

طلوعِ صبح کو بس اک کرن عطا کر دیں
کہ شب گزیدہ، سراجِ منیر، ہم بھی ہیں

***

نہ ظلم سے مفاہمت نہ جبر سے کوئی وفا
کہ امتحانِ عشق ہے، جہاں جہاں ہے کربلا

تلاوتِ سرِبریدہ وہ سناں کی نوک پر
کہ گونجتی ہے بازگشت اب بھی جس کی ہر جگہ

حرا کے نور سے جبینیں جنکی جھلملاتی تھیں
وہ ریگِ کربلا میں جگمگا رہی تھیں جابجا

نبی کی آل کا خیال ذرّہ بھر نہ رکھ سکی
جفا سرشت اتنی تو نہ تھی زمینِ نینوا

ستم! کہ اے فرات! تُو ہے بد نصیب کس قدر
کہ آلِ مصطفی کی تشنگی نہ تو بجھا سکا

کرو نثار راہِ حق میں جا ن بے ثبات یہ
حسینیت کا درس ہے، یہ کربلا کا فلسفہ

وہ دل ہی کیا، غمِ حسین جس میں جاگزیں نہ ہو
نہ یادِ کربلا میں اشکبار ہو، وہ آنکھ کیا

***

خُلُقِ اعلی کہ ناقص کو بھی کامل کر دے
جانبِ ربّ جو ہر اک قلب کو مائل کر دے

کون اُن سا؟ کہ خطاکار کو بھی اپنا کہے
اور پھر اس کی سبھی لغزشیں زائل کر دے

اُن کی صحبت کا یہ اعجاز کہ بس ایک نظر
ساربانوں کو جہانگیری کے قابل کر دے

کاش ہرچیزسےبڑھ کر ہوں وہ محبوب مجھے
ربِّ احمد! مرے ایمان کو کامل کر دے

ان کی نسبت سے ہو پہچان زمانے میں مری
بخت والوں میں مرا نام بھی شامل کر دے

گرچہ درپیش ہے اندیشۂ گرداب مجھے
تو مگر چاہے تو طوفان بھی ساحل کر دے

رستے دشوار بہت اور تھکن حد سے سَوا
مرے مالک تو رسائی میں منازل کر دے

***

ہیں ترے پاس یہ کچھ لمحہء نایاب، سنبھل
ہے مدینہ یہ، حضوری کے ہیں آداب، سنبھل

تری آواز نہ آئے، یوں سلیقے سے دھڑک
یہ درِ شاہِ اُمم ہے، دلِ بے تاب! سنبھل

لب کشائی کی تو جراءت نہیں کرنا سائل!
اپنے اشکوں کو بنا خیر کے اسباب، سنبھل

دست بستہ ہیں یہاں جامی و بوصیری بھی
سر بہ خم ہیں یہاں سرکار کے اصحاب، سنبھل

حکم ربّی ہے نہ آواز بلند ہو، ورنہ
صالح اعمال بھی ہو جائیں گے غرقاب، سنبھل

ساقیء کوثر و تسنیم کے مے خانے میں
تشنہ لب سارے ہوا کرتے ہیں سیراب، سنبھل

***

ان کےفیضِ نگاہ سے میرے تمام رستے ہوئے کشادہ
ورنہ تابِ سفر ہے کس کو، کیا مصمّم کوئی ارادہ۔

نیازِ مدحت کےاس سفر میں، تمنّا انکی مجھے ہے مہمیز
وہی ہیں راہبر قدم قدم پر، وہی ہیں منزل، وہی ہیں جادہ

بہت کٹھن ہے مرے لئے تو، غمومِ ہستی اٹھا کے چلنا
اے بارِ بیکس اٹھانے والے، سفر طویل اور میں پا پیادہ

ہر ایک ساعتِ زندگی میں، میں انکی نسبت کی ملتمس ہوں
خدا سے مانگوں ہر اک دعا میں، نہ اِس سے کچھ کم، نہ اِس سے زیادہ۔

ہےانکی رحمت حصارمیرا، جہانِ خوف وخطر میں، ورنہ
وجود میرا ہےکاہِ خستہ، ہے ذات میری فقط برادہ

Check Also

Christmas

By Javed Chaudhry