Pirzada Iqbal Ahmad Farooqi
پیرزادہ اقبال احمد فاروقی

پیرزادہ اقبال احمد فاروقی 1346ھ مطابق 4جنوری 1928ء کو ضلع گجرات (پاکستان) سے چودہ میل دور ایک چھوٹے سے گاؤں "شہاب دیوال" میں مولانا انور پیر فاروقی کے گھر پیدا ہوئے۔ پیرزادہ اقبال احمد فاروقی کا نام آتے ہی لاہور کی وہ علمی فضا ذہن میں آ جاتی ہے جس میں کتاب کی خوشبو، قلم کی حرمت اور مسلکِ اہل سنت کی فکری وقار ایک ساتھ سانس لیتے تھے۔ وہ محض ایک فرد نہیں تھے بلکہ ایک روایت تھے، ایسی روایت جو علم، اشاعت، تنظیم اور استقامت سے بنی۔
برصغیر میں رضویات کی اشاعت ایک سنجیدہ اور صبر آزما کام رہا ہے۔ یہ کام نعروں سے نہیں، برسوں کی محنت، مطالعے اور مزاج شناسی سے آگے بڑھتا ہے۔ پیرزادہ اقبال احمد فاروقی نے اسی خاموش محنت کو اپنا شعار بنایا۔ ناشرِ رضویات، مدیر ماہنامہ "جہانِ رضا" اور مجلسِ رضا کے روحِ رواں کی حیثیت سے ان کی شناخت وقت کے ساتھ ایک ادارہ بن گئی۔
ان کی ولادت ضلع گجرات کے نواحی گاؤں شہاب دیوال میں ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب برصغیر میں دینی روایت گھرانوں کے ذریعے منتقل ہوتی تھی۔ فاروقی خاندان ایک ایسا ہی علمی و روحانی خانوادہ تھا جہاں علم وراثت میں ملتا تھا اور عمل اس کی تفسیر بنتا تھا۔ والد، دادا، پردادا اور دیگر بزرگ سب علم و تصوف کے چراغ تھے۔ سری نگر کے مضافات سے ہجرت کرکے آنے والا یہ خاندان اپنے ساتھ صرف سامان نہیں بلکہ صدیوں کی تہذیبی روشنی بھی لایا تھا۔
ابتدائی تعلیم گھر کے ماحول ہی میں ہوئی۔ قرآن، تجوید اور قرأت والد اور تایا سے حاصل کی۔ فارسی ادب سے شغف بچپن ہی میں پیدا ہوگیا اور گلستان، کریما اور پندنامہ جیسے متون کے معانی پنجابی میں یاد کرنا اس دور کے تعلیمی ذوق کی خوب صورت مثال ہے۔ لاہور کا سفر 1937ء میں ہوا اور یوں ایک طالب علم علم کے اس شہر سے جڑ گیا جو بعد میں اس کی شناخت کا حصہ بن گیا۔
مولانا محمد نبی بخش حلوائی، دارالعلوم حزب الاحناف، مدرسہ تعلیم الاسلام بہاولنگر اور پھر پنجاب یونیورسٹی تک کا سفر محض اسناد حاصل کرنے کا سفر نہیں تھا بلکہ فکری تشکیل کا زمانہ تھا۔ منشی فاضل، مولوی فاضل، میٹرک، انٹر، گریجویشن، ایم اے، ایل ایل بی، سب مراحل ترتیب سے طے ہوئے۔ اسی دوران خطاطی جیسے لطیف فن سے شغف بھی رہا جو ان کے ذوق کی ہمہ گیری کو ظاہر کرتا ہے۔
سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت نے ان کی شخصیت کو وہ باطنی توازن دیا جو بعد میں ان کی تحریر، تقریر اور تنظیمی مزاج میں نمایاں نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اختلاف میں بھی شائستہ اور دعوت میں بھی سنجیدہ رہے۔
1962ء میں مکتبہ نبویہ لاہور کا قیام ان کی زندگی کا اہم موڑ تھا۔ اشاعتِ دین کو انہوں نے تجارت نہیں بنایا بلکہ خدمت سمجھا۔ نادر کتب کے تراجم، مشکل متون کی ترتیبِ نو اور اہل سنت کے علمی ذخیرے کو عام فہم انداز میں پیش کرنا ان کا امتیاز تھا۔ "معارج النبوت"، "الدر الثمین"، "روضۃ القیومیہ" اور دیگر کتب محض شائع نہیں ہوئیں بلکہ ایک فکری خلا کو پُر کرتی گئیں۔
ماہنامہ"جہانِ رضا" ان کی زندگی کا مستقل حوالہ ہے۔ تین دہائیوں سے زائد عرصہ اس رسالے کی اشاعت نے رضوی فکر کو سرحدوں سے آزاد کر دیا۔ پاکستان سے نکل کر ہندوستان، یورپ، امریکا اور عرب دنیا تک اس کے قارئین پھیل گئے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کے افکار پر چالیس ہزار سے زائد مقالات کی اشاعت کوئی اتفاق نہیں، یہ ایک منظم اور مسلسل فکری منصوبہ تھا۔
لاہور کی گنج بخش روڈ کو بازارِ علم بنانے میں بھی ان کا کردار پس منظر میں رہ کر سامنے آتا ہے۔ مکتبہ اسلامیہ، مکتبہ حامدیہ اور ضیائے حرم جیسے ادارے اسی فکری فضا کی پیداوار تھے۔ یہ وہ لاہور تھا جہاں طالب علم کتاب کی تلاش میں گلیوں میں گھومتے تھے اور علما مکالمے سے علم کو آگے بڑھاتے تھے۔
مرکزی مجلس رضا کا قیام 1967ء میں ایک اور سنگ میل تھا۔ جلسے، سیمینار، کتب، پمفلٹس اور نغماتِ رضا کے ذریعے جو فکری بیداری پیدا ہوئی، وہ آج بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہ کام شور سے نہیں بلکہ حکمت، منصوبہ بندی اور مسلسل محنت سے ہوا۔
سرکاری ملازمت کے باوجود ان کا علمی رشتہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔ 1988ء میں گریڈ 19 سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ پوری طرح علم و اشاعت کے لیے وقف رہے۔ ان کا حلقہ احباب پاک و ہند کے علما، مشائخ اور محققین پر مشتمل تھا، خاص طور پر رضویات پر کام کرنے والوں سے ان کی وابستگی مثالی تھی۔
16 صفر 1435ھ، 20 دسمبر 2013ء کو ان کا وصال ہوا۔ میانی صاحب کے قبرستان میں تدفین ہوئی اور یوں ایک عہد اختتام کو پہنچا، مگر ان کی کتب، رسائل اور شاگردوں کی صورت میں یہ عہد آج بھی زندہ ہے۔
ساٹھ سے زائد تصانیف و تراجم، "فکر فاروقی"، "تذکرہ علمائے اہل سنت لاہور"، "نسیم بطحا"، "باتوں سے خوشبو آئے" اور دیگر کتب اس بات کی گواہ ہیں کہ پیرزادہ اقبال احمد فاروقی نے زندگی کو صرف جیا نہیں بلکہ لکھا، سنوارا اور آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کیا۔ وہ واقعی سفیرِ رضا تھے۔ خاموش طبع، مستقل مزاج اور باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ ایسے لوگ تاریخ کے ہنگاموں میں کم بولتے ہیں، مگر وقت گزرنے کے بعد انہی کی آواز سب سے واضح سنائی دیتی ہے۔

