Pak Afghan Tijarti Guzargah Ki Bahali
پاک افغان تجارتی گزرگاہ کی بحالی

پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم کے مقام پر تجارتی گزرگاہ کی بحالی دونوں ممالک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس تجارتی گزرگاہ اور چترال کے آرندو مقام پر واقع گزرگاہ کی بحالی دونوں ممالک کے ہزاروں گھرانوں کی روزی اور معیشت کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ افغان فورسز کی جانب سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی اور غیر قانونی میں تعمیرات کے باعث پیدا ہونے والی کشیدگی کے نتیجے میں 21 فروری کو اس گزرگاہ کو بند کردیا گیا تھا اس گزرگاہ کی بندش کی وجہ سے دونوں ممالک کو شدید اقتصادی نقصان پہنچا۔ طورخم گزرگاہ دوبارہ کھولنے کا یہ فیصلہ نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی کو کم کرنے کا باعث بنے گا بلکہ اس سے دوطرفہ تعلقات پر بھی مثبت اثرات مرتب ہونگے۔
طورخم سرحد تاریخی طور پر برصغیر اور وسطی ایشیا کے درمیان ایک اہم تجارتی راستہ رہی ہے۔ 1893 میں طے پانے والی ڈیورنڈ لائن معاہدے کے بعد سے یہ علاقہ ایک متنازعہ حیثیت کا باعث بن گیا۔ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد بھی یہ راستہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی، سماجی اور ثقافتی تعلقات کا بنیادی مرکز رہا ہے۔ تاہم مختلف ادوار میں سیاسی اور سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے اس راستے پر کشیدگی پیدا ہوتی رہی ہے۔
طورخم گزرگاہ کی بندش کے نتیجے میں پاکستان کو یومیہ تین ملین ڈالر کا نقصان ہوا، جس کا مجموعی تخمینہ 75 ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔ دوسری طرف افغانستان کو بھی شدید اقتصادی مشکلات کا سامنا رہا کیونکہ پاکستان افغانستان کا ایک اہم تجارتی شراکت دار بھی ہے۔ اس بندش سے نہ صرف دونوں ممالک کے تاجر متاثر ہوئے بلکہ روزمرہ کے عام افراد کو بھی مشکلات پیش آئیں۔ ہزاروں مال بردار گاڑیاں دونوں جانب پھنس گئیں، جس سے اشیائے خورد و نوش اور دیگر بنیادی ضروریات کی ترسیل متاثر ہوئی۔
طورخم سرحدی تنازعے کے حل کے لیے دونوں ممالک نے مشترکہ جرگے کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ پاکستانی جرگہ کے سربراہ سید جواد حسین کاظمی کے مطابق، افغان جرگہ نے اپنے حکام کو مشترکہ فیصلے پر راضی کر لیا، جس کے بعد 19 مارچ کو سرحد کھولنے کا اعلان کیا گیا۔ یہ فیصلہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ باہمی گفت و شنید سے بڑے سے بڑا مسئلہ بھی حل کیا جا سکتا ہے۔
دونوں ممالک کو ایک مستقل سرحدی مکالمے کے لیے ایک مشترکہ فورم تشکیل دینا چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کیا جا سکے۔ دونوں ممالک کے درمیان ایک مستقل اور قانونی تجارتی معاہدہ ہونا چاہیے تاکہ گزرگاہ کی بندش سے معاشی نقصان کو کم کیا جا سکے۔
طورخم سرحدی علاقے میں مشترکہ سیکیورٹی و انسپکشن یونٹس کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ مستقبل میں غیر ضروری کشیدگی سے بچا جا سکے۔ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان ثقافتی، تعلیمی اور تجارتی سطح پر تعلقات کو فروغ دینا چاہیے تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہو اور تعلقات میں بہتری آئے۔
پاکستان اور افغانستان صدیوں سے تاریخی، جغرافیائی، دینی، تہذیبی اور لسانی رشتوں میں منسلک ہیں۔ خوشگوار اور دوستانہ باہمی تعلقات دونوں ملکوں کی ناگزیر ضرورت ہیں۔ طورخم کی تجارتی گزرگاہ کا دوبارہ کھلنا اس بات کا ثبوت ہے کہ باہمی افہام و تفہیم اور گفت و شنید سے اختلافات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ اس پیش رفت کو دونوں ممالک کے فیصلہ سازوں کے لیے ایک مثال بناتے ہوئے دیگر اختلافات کا حل بھی پرامن مکالمے سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ دونوں ممالک کی معیشت مستحکم ہو اور خطے میں استحکام اور ترقی کو فروغ ملے۔